کچھ یہاں پھیلا ہوا تھا، کچھ وہاں پھیلا ہوا
خواب میں دیکھا ، زمیں پر آسماں پھیلا ہوا
شب کے اندھیارے میں دیکھی روشنی ہی روشنی
دن کے اجیارے میں تھا ، ہر سُو دھواں پھیلا ہوا
ہم نے باغوں کی طرف جب بھی کیا اپنا سفر
ہر قدم ہم کو ملا ، دشتِ تپاں پھیلا ہوا
بے اماں اکثر ہوا ہے ، آدمی اس کے تلے
آدمی کے سر پہ جو ہے سائباں پھیلا ہوا
ایک نقطے پر سمٹ آیا یقیں کا ارتکاز
اِس سے پہلے ، عالم عالم تھا گماں پھیلا ہوا
عمر بھر باندھی تھی ، جس دامن میں اپنی ہر طلب
آج وہ دامن تھا سوئے آسماں پھیلا ہوا