وقت کے گورکن نے
منادی کرا دی ہے ، جب رات
آدھی مسافت کی حد
پار کرنے لگے گی
تو سالِ رواں
چھوڑ کر اپنے بیتے دنوں کے نشاں
— اپنے کتبے سے ملحق بنی لحد میں
آخری سانس لے کر، اتر جائے گا—!
اور بجتے ہوئے شادیانوں کے ساتھ
جھومتا، جھومتا، رقص کرتا ہوا—
زیست کا، وقت کا
اک نیا مرحلہ
نو بہ نو مرحلوں کا، نیا سلسلہ
ایک ہی جست میں، بھاگتے وقت میں
جذب ہو کر ، نیا سال، بن جائے گا—!
(۲)
جانے کتنے نئے سال آئے، گئے
جانے کتنے نئے سال آئیں گے، جائیں گے
ہم سے پہلے بہت لوگ، آئے گئے
بعد میں بھی بہت لوگ آئیں گے، جائیں گے
وقت رکتا نہیں
مادرِ ارض گردش سے تھکتی نہیں—!
(۳)
’’کُن‘‘ کے ارشاد سے قبل کیا تھا—؟
نظر میں نہیں—!
صور پھونکا گیا، صور کی گونج سے
جو بھی تھا یا نہ تھا
اک دھواں سے اٹھا، اور چلنے لگا
کہکشائوں کی تخلیق ہونے لگی—!
(۴)
کہکشائوں کی تخلیق کا سلسلہ
’’لفظ‘‘ سے جو چلا، ’’لفظ‘‘ پر رک گیا
ایک لحظے کی تاخیر ممکن نہ تھی
صور پھونکا گیا—
آسماں الٹے پیالے کی مانند خالی ہوا
اور زمیں پھٹ گئی—!
تہہ بہ تہہ ہر پرت
کھل گئی
کچھ چھپا نہ رہا، کچھ ڈھکا نہ رہا
سب عیاں ہوگیا—!
بحر — دریائوں میں آگئے
اور دریا سبھی
الٹے بہنے لگے—
جبل
روئی کے گالوں کی مانند، سب
کو بہ کو، چار سُو
اڑتے پھرنے لگے
— اور آہستہ آہستہ
میدان میں
حشر جمنے لگا—!!