صنم کدے میں صنم کے سوا بہت کچھ تھا
میں کیا بتائوں ، اے میرے خدا بہت کچھ تھا
کسی کے نام سے کھینچا گیا خطِ تنسیخ
وگرنہ لوح پہ لکھا ہوا بہت کچھ تھا
وہ جس نے باندھ رکھا عمر بھر مرے دل کو
جو میرا ہو نہ سکا وہ مرا بہت کچھ تھا
بدن میں روح تھی لیکن پہنچ سے باہر تھی
بدن میں روح تلک فاصلہ بہت کچھ تھا
جہاں میں آپ کے ، میری بساط ہی کیا تھی
جہاں میں آپ کے اچھا برا بہت کچھ تھا
زمانے بھر کے تماشے ، نظر میں تھے جاویدؔ
میں دیکھتا ہی نہ تھا ، جانتا بہت کچھ تھا