اکیلا ہوں کہ تنہائی بہت ہے
کسی کی یاد بھی آئی بہت ہے
محبت اور یہ عمرِ گریزاں
تعارف اور شناسائی بہت ہے
تعلق توڑنا ، آساں ہے لیکن
جدا ہونے میں رسوائی بہت ہے
مجھے ہرجائی آنکھوں نے بنایا
مری آنکھوں میں بینائی بہت ہے
یہ باتیں جس کی بابت کہہ رہا ہوں
سنا ہے اُس میں یکتائی بہت ہے
ادب میں دل کا عنصر گھٹ رہا ہے
اثر کیا ہو کہ ّصناعی بہت ہے
تری سوچوں سے عاجز ہوں جاویدؔ
تری سوچوں میں گہرائی بہت ہے