رات چھانے لگی
ذہن جلنے لگا
دل سلگنے لگا
یاد آنے لگی!
سانس کا سلسلہ
سسکیوں میں ڈھلا
جلتی پلکوں سے آنسو ڈھلکنے لگے
سارا ماحول—
رونے ، بلکنے لگا
یاد آنے لگی!
کمرئہ خواب میں، جانے کس سمت سے
کھٹ کھٹائے بنا، در ہلائے بنا
تند و تیز آندھی کی طاقت لیے
کوئی موجِ ہوا
بے صدا ، بے ندا
آگئی—
چھت اڑا لے گئی
اور دیوار و در، بے صدا، بے مزا
شب کے ماحول میں— ُگھل گئے
فرش غائب ہوا
یاد آنے لگی!
میرے پیروں کے نیچے
زمیں تھی—؟ نہ تھی—؟
سر کے اوپر مرے
سائبانِ فلک تھا— کہ شاید
نہ تھا—؟
یوں طنابیں کھنچیں ارض کی
فاصلے مُک گئے—
زیست کی شاہراہوں پہ چلتے ہوئے
قافلے رک گئے
وقت ساکت ہوا
یاد آنے لگی!
میں کہاں؟ وہ کہاں؟
چاند تاروں کی چادر لپیٹے ہوئے
ماتمی آسماں!
عالم، عالم اسے یاد کرنے لگا
عالم، عالم وہی یاد آنے لگی
یاد آنے لگی!