بجھتی ہو جس سے پیاس وہ پانی نہیں ملا
دنیا کی اس سبیل میں کاسے ملے بہت
رُودِ فرات جن کے قدم چومنے کو تھی
صحرا میں کربلا کے وہ پیاسے ملے بہت
مشکل گزاری زیست خود اپنی پسند سے
آسان زندگانی کے رستے ملے بہت
جاویدؔ ہم نے ہاتھ کھنچے ہی کھنچے رکھے
دستِ یزید راہ میں پھیلے ملے بہت