عذابِ زیست کا حاصل جو تھا وہی نہ ملا
سفر کی آخری منزل جو تھا وہی نہ ملا
ملے ہزار مگر وہ تھا صد ہزار میں ایک
گلے لگانے کے قابل جو تھا وہی نہ ملا
دھڑکتا رہتا تھا جو دل کے ساتھ سینے میں
اک ایک سانس میں شامل جو تھا وہی نہ ملا
جو میرے ذہن کے مرکز پہ راج کرتا تھا
وہ میری روح مرا دل جو تھا وہی نہ ملا
جسے تلاش کیا میں نے موج موج کے ساتھ
وہ میرے نام کا ساحل جو تھا وہی نہ ملا