رہے پرچھائیوں میں اصل پیکر ڈھونڈنے والے
زمیں پر آ رہے سب آسماں پر ڈھونڈنے والے
بھٹکتے پھر رہے تھے اپنے گھر میں گھر سے غافل تھے
رہے گردش میں ساری عمر یہ گھر ڈھونڈنے والے
کبھی کھلتا نہیں ہے بھید اندر کے جہانوں کا
کبھی باہر نہیں آتے ہیں ، اندر ڈھونڈنے والے
جہاں پہلے پہل سجدہ کیا تھا ، اس جگہ ڈھونڈیں
ہمارا سر ، ہمارے تن کے اوپر ڈھونڈنے والے
یہ ہیں جاویدؔ صاحب ڈھونڈنا ، ان کو نہیں آتا
یہ خود کو بھی گنوا بیٹھے ہیں بن کر ڈھونڈنے والے