جسم کے روشن دریچوں سے اُتر کر آگیا
کوئی دل کے بند دروازے کے اندر آگیا
میں تو خود سے بھی گریزاں تھا ، بلاتا کیا اسے
بِن بلائے وہ مرا مہمان بن کر آگیا
اُس نے شاید پھول ہی پھینکا ، مرے سر کی طرف
میری قسمت پھول کے بدلے میں پتھر آگیا
حشر کے جمنے میں لگتا ہے ، ابھی تاخیر ہے
میرا سورج کیوں سوا نیزے کے اوپر آگیا