دنیا نے جب ڈرایا تو ڈرنے میں لگ گیا
دل پھر بھی پیار آپ سے کرنے میں لگ گیا
شاید کہیں سے آپ کی خوش بو پہنچ گئی
ماحول جان و دل کا سنورنے میں لگ گیا
اک نقش موجِ آب سے برہم ہوا تو کیا
اک نقش زیرِ آب ابھرنے میں لگ گیا
جاویدؔ نزد آبِ رواں کہہ گیا فقیر
دریا میں جو گیا وہ گزرنے میں لگ گیا