اوّل تو دل کی بات سنائی نہیں دیتی
اور جب سنائی دے تو رہائی نہیں دیتی
آنکھیں تلاش کرتی ہی رہتی ہیں عمر بھر
ہر دیکھنے کی چیز دکھائی نہیں دیتی
ایسی شکستہ پائی پہ قربان راستے
سہتی ہے جو عذاب ، دہائی نہیں دیتی
کثرت جھلک جھلک میں جھلکتی ہے کو بہ کو
وحدت کسی جھلک کو رسائی نہیں دیتی
جاویدؔ تشنگی ہے کہ دیوانگی ہے یہ
قدموں میں جوے آب سجھائی نہیں دیتی