چاہا تو بہت لیکن اتنا بھی نہیں ہم نے
اک حد سے گزرنے کا سوچا بھی نہیں ہم نے
اک پھول کو جب دیکھا ، کیا جانیے کیا دیکھا
اس پھول کو ڈالی سے توڑا بھی نہیں ہم نے
اس پھول کو چاہا بھی ، اس پھول کو پوجا بھی
پوجا کے بہانے سے چوما بھی نہیں ہم نے
کچھ پھول میں لرزش تھی ، کچھ لہر تھی ڈالی میں
اس لہر کی مستی کو لوٹا بھی نہیں ہم نے
وہ لہر ہوا کی تھی یا موج تھی دریا کی
کب اس نے ہمیں گھیرا ، جانا بھی نہیں ہم نے
جاویدؔ جنوں تھا یا جادو کا اثر کوئی
کیا آپ کے اوپر تھا ، سمجھا بھی نہیں ہم نے