کیوں رہے آسمان کے نیچے
کیا ملا اس مچان کے نیچے
قہر جو آسمان پر ٹوٹا
آ گرا آسمان کے نیچے
دھوپ گرمی میں ، برف سردی میں
ہم پہ اُتری مچان کے نیچے
یہ جو اک آن بان ہے اوپر
کیا ہے اس آن بان کے نیچے
لان تو ہے ہرا بھرا لیکن
خشک مٹی ہے لان کے نیچے
جس کو دیکھو زمیں کے پیچھے ہے
کیا ہے اس خاک دان کے نیچے
کتنا اونچا اڑے ، اڑے کوئی
لوٹتا ہے مچان کے نیچے
گو ، یقیں تھا ، گمان کے اوپر
لوگ ٹھہرے گمان کے نیچے
یہ جو سیلاب رودِ جاں میں ہے
اس کو رکھیے نشان کے نیچے
رات آئی تو اک زمیں والا
سو گیا آسمان کے نیجے
کتنے پاپوش تھے مذ٭ّلت کے
ایک مانگے کی نان کے نیچے
تھی غزل جب زبان کے اوپر
آبلے تھے زبان کے نیچے
عمر ساری گزر گئی جاویدؔ
صبر کی اک چٹان کے نیچے