لمحوں کے ساتھ ساتھ گزرنے میں لگ گیا
جینے کا سارا وقت بھی مرنے میں لگ گیا
اک وقت جب زمین سے جڑنے کی شرط تھی
اک وقت آسماں سے اترنے میں لگ گیا
اک وقت کھل کے جینے سے روکا گیا ہمیں
اک وقت اپنا موت سے ڈرنے میں لگ گیا
ہم منتظر تھے جس کے سرِ شاخسارِ دل
وہ پھول جب کھلا تو بکھرنے میں لگ گیا
جاویدؔ زندگی کا تسلسل عجیب ہے
جینے میں لگ گیا کبھی مرنے میں لگ گیا