مر گیا پانی جو تھا ٹھہرا ہوا
سوچیے ، ہے اور کیا ٹھہرا ہوا
ڈھونڈتی پھرتی ہے جس کو اب دعا
ہے کہاں دستِ دعا ٹھہرا ہوا
دھیان کی شاخِ شجر پر ہے ابھی
ایک چہرہ پھول سا ٹھہرا ہوا
گھر کے اندر آبسی ، کیوں بے گھری
کون یہ گھر سے گیا ٹھہرا ہوا
پائوں چلتے ہیں ، سفر کٹتا نہیں
ہے سفر کا راستا ٹھہرا ہوا
گھنٹیاں بجنے لگیں کانوں کے پاس
قافلہ دل کا چلا ، ٹھہرا ہوا
کام ایسا کیجیے جس کو کہیں
چشمۂ آبِ بقا ٹھہرا ہوا