پہلے آتا تھا کبھی، اب نہیں آنے والا
دشتِ بے آب میں بھی پھول کھلانے والا
ایک سے ایک تھے یاں جسم سجانے والے
ڈھونڈنے سے نہ ملا روح سجانے والا
شاخِ گل پھول پہ نازاں ہے مگر سوچے ہے
ہے کوئی تیز ہوائوں سے بچانے والا
برف باری سے جلا پیڑ تو دل نے سوچا
برف نے کام کیا آگ لگانے والا
مرنے والا تو مرا وقت سے پہلے ہی سہی
بچ کے جائے گا کہاں مار کے جانے والا