کس بنا پر اور کس عہدِ وفا پر چھوڑ دیں
کیوں شجر نے ڈالیاں اپنی ہوا پر چھوڑ دیں
ڈوبتی کشتی کا رُخ ساحل کی جانب موڑ کر
ناخدا نے اپنی تدبیریں خدا پر چھوڑ دیں
بند توڑے اونچے محلوں کی حفاظت کے لیے
اور نشیبی بستیاں سیلِ بلا پر چھوڑ دیں
آپ تو جاویدؔ خود اپنے تعاقب میں گئے
اپنی ہی پرچھائیاں رستوں پہ لاکر چھوڑ دیں