سدا سکھ دے کے دکھ پایا نہ سمجھا
یہ دل دستور دنیا کا نہ سمجھا
فضا میں ناچتا تھا والہانہ
ہوا کی زد میں تھا تنکا ، نہ سمجھا
یہ رنگت جان ہی لے کر ٹلے گی
خزاں کے رنگ کو ّپتا نہ سمجھا
پرائی آگ میں جلتا رہا یوں
خود اپنی آگ پروانہ نہ سمجھا
بنانے والا سب کچھ جانتا ہے
بنانے والے کو پُتلا نہ سمجھا
بھری محفل میں ان کو کہہ دیا جو
وہ ہم سمجھے کوئی دُوجا نہ سمجھا
اکیلے میں بھی کیوں تنہا نہیں ہم
اکیلے میں بہت سوچا نہ سمجھا
اٹھاتا پھر رہا تھا لاکھ پردے
خود اپنے آپ کو پردا نہ سمجھا
اِسے اندھی محبت ہی کہیں گے
ہوئے اُس کے جسے دیکھا نہ سمجھا
بہت دیکھی ہے دنیا آپ نے بھی
مگر جاویدؔ جو دیکھا نہ سمجھا