خدا کے ماسوا جب کچھ نہیں ہے
فقط وہم و گماں ہیں، آپ ہم کیا
کسی مجذوب سے یہ پوچھنا ہے
خودی کیا ہے ، خدا کیا ہے ، صنم کیا
ہے جینا سلسلہ در سلسلہ جب
ازل کیا ہے ، ابد کیا ہے ، عدم کیا
ڈبو دے گا مجھے خود میرا دریا
کسی باہر کے دریا میں ہے دم کیا
حسین ابنِ علی کے غم سے بڑھ کر
ملے گا ہم کو اس دنیا میں غم کیا
کھڑے ہو وقت کی سرحد پہ جاویدؔ
رکھو گے وقت کے باہر قدم کیا