حرف حرف میں اپنے، ان کی بات رکھنی ہے
اک شناخت گم کرکے، اک شناخت رکھنی ہے
وہ صفات کے پیچھے ، ہی چھپے ہوئے ، اچھے
ہم کو ان حجابوں میں پاک ذات رکھنی ہے
وہ تو ایک ذرّے کو ، کائنات کر دیں گے
ہم کو ایک ذرّے میں ، کائنات رکھنی ہے
کربلا کے صحرا میں ، ہیں کھڑے ہوئے عباسؓ
مشکِ آب زخمی ہے اور فرات رکھنی ہے
ان کی بات کے آگے اپنی بات کیا جاویدؔ
بولنے میں ، لکھنے میں احتیاط رکھنی ہے