سچ رکھا یا کوئی دھوکا ر٭ّکھا
آئنے نے ہمیں الٹا ر٭ّکھا
باغ کے سارے شجر بھیگ گئے
بارشوں نے کسے سوکھا ر٭ّکھا
سامنا ہو تو ہوا سے پوچھوں
ڈالیوں میں کوئی پتّا ر٭ّکھا؟
جس نے دریا کو رفاقت بخشی
اس کو دریا نے پیاسا ر٭ّکھا
ہائے فرأت ترے بختِ سیاہ
تو نے کس شخص کو پیاسا ر٭ّکھا
رکھنے والے نے جدائی ر٭ّکھی
ایک کو ایک کا پردہ ر٭ّکھا
رکھا نانا کو مدینے میں الگ
کربلا تجھ میں نواسا ر٭ّکھا
بڑی مشکل مجھے پیش آئی ہے
بڑی مشکل سے سنبھالا ر٭ّکھا
تو جو بکھری ہوئی سچائی ہے
میں نے مالک تجھے یک جا ر٭ّکھا