سفر اپنا سرابوں کی طرف ہے
جو منزل ہے وہ خوابوں کی طرف ہے
نگہ میں خوب صورت بستیاں ہیں
عجب دل ہے خرابوں کی طرف ہے
مزے ہیں عاشقی کی زندگی میں
مگر جینا عذابوں کی طرف ہے
کیا جس نے ہمیں پردے سے باہر
وہ پردوں اور حجابوں کی طرف ہے
اِدھر بندے سوالوں میں ہیں الجھے
اُدھر آقا جوابوں کی طرف ہے
ابھی ہے ہاتھ میں تسبیح جاویدؔ
ابھی تک دل حسابوں کی طرف ہے