یہ جو اک تیر ہے، چبھتا ہوا سا
ازل سے ہے مرا دیکھا ہوا سا
ورق سادہ لیے بیٹھا ہوں لیکن
ورق سادہ بھی ہے ، لکھا ہوا سا
مری سوچوں کو دنیا سوچتی ہے
میں ہوں درویش اک پہنچا ہوا سا
فرشتے آسماں سے آتے جاتے
خدائے مہرباں ، روٹھا ہوا سا
کہو جاویدؔ کچھ کہنے کے لائق
مگر ایسا کہ ہو اِلقا ہوا سا