شاخ آشنائی کی
جب شجر سے کٹ جائے
شام دل ربائی کی
روٹھ کر پلٹ جائے
قلب و جاں میں پت جھڑ رُت
لوٹ سی مچا بیٹھے
پاس کھول کر بازو، روح کو دبا بیٹھے—!
آسمانِ دنیا میں
آگ کے جہازوں سے
موت جب برستی ہو
نیچے— ارض کے اوپر
زندگی ترستی ہو—!
ہر نئے کھنڈر میں جب
امن اور کلچر کے
بھوت رقص کرتے ہوں
بستیوں کی گلیوں میں
موڑ، موڑ ملبہ ہو
غاصبوں کا غلبہ ہو—!
جسم و جان کی خاطر بھاگتے ہوئے انساں
آس کی چٹانوں سے
جا بجا لٹکتے ہوں
نیچے—
منتظر اُن کی
ظلم کی دراڑیں ہوں
جبر کی گپھائیں ہوں
نت نئی بلائیں ہوں
جو
نظر نہیں آئیں
اور گرنے والے کا
اندرون کھا جائیں—!