منزلیں دُور گم ہوئی ہوں گی
وقت پیما اُلٹ گئے ہوں گے
اور تاریخ کی کتابوں کے
چند پنّے پلٹ گئے ہوں گے
کارواں منتشر ہوا ہوگا
لوگ راہوں میں بٹ گئے ہوں گے
دائرے دائروں میں گم ہو کر
اصل مرکز سے ہٹ گئے ہوں گے
پیڑ خالی ہوئے ہیں چڑیوں سے
چیل ، شکرے جھپٹ گئے ہوں گے
اب نہ بچے ہیں نا غبارے ہیں
ایک اک کرکے پھٹ گئے ہوں گے
زندہ لوگوں کی کھوج جاری ہے
ڈھیر ملبے کے چھٹ گئے ہوں گے