بدلتے موسموں کے ساتھ ہی منظر بدلتے ہیں
شجر تیور بدلتے ہیں ، پرندے گھر بدلتے ہیں
بدلنے کی جو شے ہے وہ بدلتا ہی نہیں کوئی
کبھی مینا بدلتے ہیں ، کبھی ساغر بدلتے ہیں
ہلاکو اگلے وقتوں کے جدا کرتے تھے سر تن سے
مگر یہ آج کے ظالم ہمارے سر بدلتے ہیں
اسے جاویدؔ کہیے انتہا تخریب کاری کی
عمارت کی بِنا ڈھاتے نہیں ، پتھر بدلتے ہیں