اگر سیلاب کا چہرا نہ دیکھا
تو گویا آپ نے دریا نہ دیکھا
رکھیں آنکھیں کھلیں گو ہم نے دل کی
مگر دل سا کوئی اندھا نہ دیکھا
عبث تھا بھاگنا دنیا کے پیچھے
جو بھاگے اُن نے پھر کیا کیا نہ دیکھا
فقیری تو گنوانے کا ہنر ہے
وہ پیالہ کیا جسے ٹوٹا نہ دیکھا
پڑی جب روشنی— پرچھائیں ناچی
کوئی بھی ناچنے والا نہ دیکھا
رہے سب پیڑ کے سائے کے نیچے
کسی نے پیڑ کو جلتا نہ دیکھا
گلی میں ہم نے اکثر دھوپ تاپی
کسی دیوار کا سایہ نہ دیکھا
زمانے نے بہت سے لوگ دیکھے
کوئی مجھ سا ، کوئی تجھ سا نہ دیکھا
وہ سب دیکھا ، فلک نے جو دکھایا
زمیں نے آج تک کیا کیا نہ دیکھا
مگر جو آدمی دِکھلا رہا ہے
زمیں نے آج تک سوچا نہ دیکھا
کبھی جاویدؔ یہ دنیا سے پوچھو
یہاں کیا دیکھنا تھا کیا نہ دیکھا