راہ میں دھوپ تھی، سایوں کے شجر پیچھے تھے
دل تڑپتا تھا ، مگر دل کے نگر پیچھے تھے
راستے نے کہاں دیکھے تھے مسافر ایسے
جن کے تن آگے تھے ، کاٹے ہوئے سر پیچھے تھے
فاختہ امن کی تھی نوکِ سناں پر آگے
شہرِ تاراج میں ، ٹوٹے ہوئے پر پیچھے تھے
کارواں والوں نے ان کو نہ کبھی یاد کیا
کیا ہوئے راہ میں ، جو خاک بسر پیچھے تھے
فرض بھی کر لیں کہ رَن میں تھے لڑانے والے
مرنے اور مارنے والوں سے مگر پیچھے تھے
ہم چلے جاتے تھے جاویدؔ سفر کی دُھن میں
جن کو سمجھا تھا کہ آگے ہیں وہ گھر پیچھے تھے