وہ جس نے اصل ’’میں‘‘ کے سامنے
اپنی ’’انا‘‘ رکھی٭ّ
خود اپنی ہی بڑائی کی اور اپنی
میں کو عظمت دی
کہا:
’’میں آگ کے شعلے کی لَو سے ہوں‘‘
کہا:
’’آدم تو ادنیٰ، خاک کا ُپتلا ہے
مٹی کا پیکر ہے، بہت وہ مجھ سے کم تر ہے
میں اپنے سے کسی کم تر کو سجدہ
کر نہیں سکتا—
یہی وہ حکم ہے میں جس کو پورا کر نہیں سکتا!
اگر وہ ’’میں‘‘ کی منطق درمیاں لائے بِنا
کہتا، ’’مرے آقا—
میں تیرے حکم کا بندہ ہوں لیکن ماسوا تیرے
کسی بھی ’غیر‘ کو سجدہ
ادا کرنے سے قاصر ہوں
مرے آقا—!‘‘
تو صورت اور ہوجاتی—!