سمندر منتظر دریا کا ہے: دریا کا طالب بھی
ادھر دریا سمندر کی طرف
بہنے پہ مائل ہے
کوئی ہے دیکھتا رستہ کسی کا
کوئی اس راستے پر چل رہا ہے—!
سمندر بے کراں پانی
مگر پیاسا ہے اندر سے—
وہ ان مٹ پیاس ہے
اک تشنگی ہے
— قائم و دائم
جو دریائوں کے پیمانوں سے اپنی پیاس
پیتی ہے
مگر بجھنے نہیں پاتی، سدا موجود رہتی ہے—!
سمندر کی طلب دریائوں کو رستہ دکھاتی ہے
بہاتی ہے اور اپنی سمت لاتی ہے
سمندر کی طرف بہتے ہوئے دریا
یونہی بہتے نہیں رہتے:
فرائض ان کو جو سونپے گئے
انجام دیتے ہیں
زمیں کی کوکھ کو تخلیق کے سو کام
دیتے ہیں:
اگر سیلاب لاکر بستیاں تاراج کرتے ہیں
نئی آباد کرتے ہیں
کہ پانی زندگی ہے—!
کسی دریا پہ کھل جائے سبب اس کی روانی کا
تو کوئی فرق پڑتا ہے—!
اگر یہ گیان ہو جائے کہ ہر دریا کی منزل
سمندر ہے، جہاں وہ غرق ہوتا ہے
تو کوئی فرق پڑتا ہے—!