میں جس کل کی طرف
جاتی ہوئی تہذیب دیکھوں ہوں
جو کلچر—
آج ہے اس میں نئی ترتیب دیکھوں ہوں
اگر سب دیکھ پائیں— تو
نئے فرعون اور نئے نمرود دیکھیں گے
مشینوں سے جو دنیا کو نئی دنیا بنائیں گے
نئے انسان ڈھالیں گے
جو ہوں گے آدمی جیسے مگر ان کے دماغ اور دل کے سارے
اندروں
ان کے نہیں ہوں گے
وہ اپنی ذاتی سوچوں سے تہی ہوں گے
خود اپنے آپ سے بھی بے خبر اور اجنبی
ہوں گے
غلامی اور محکومی میں نقشِ بے بسی ہوں گے
مشینی دیوتائوں کے
وہ سب زیرِ نگیں ہوں گے
میں جب یہ سوچتا ہوں
اور یہ محسوس کرتا ہوں
تو— دہشت سے
لرزتا ہوں—!