شجر ملکوں پہ
پنجے مارتے، چڑیا وجودوں پر
عقابی ملک، استحصال کے درپے
ہمارے آج کی تصویر بنتے ہیں—!
ڈرو— اس آج سے
جس آج میں بھیڑوں کے گلو٭ّں پر
— بھیڑیے یلغار کرتے ہیں—!
ڈرو— اس آج سے
جس آج میں ہرنوں کی ڈاروں کو
کہیں— شیروں نے گھیرا ہے—!
ڈرو— اس آج سے
جس آج میں گنے٭ّ کے کھیتوں سے
کساں مغرور
ہاتھی— دندناتے ہیں—!
ڈرو اس آج سے، جس آج میں
کم زور ملکوں کی فضائوں میں
ڈرون اڑتے ہیں دہشت کے
کہاں جائے گا کوئی ملک
اپنا آسماں لے کر—؟
ڈرو اس آج سے، جس آج میں
اقوامِ عالم کی مجالس میں
— اگر کم زور ملکوں کی
کوئی آواز اٹھتی ہے
سماعت کے دریچے اور دروازے
نہیں کھلتے—!