زمیں رقصاں ہے اس کے گرد
جو گردش نہیں کرتا
جو اندر آگ کا گولہ ہے
باہر روشنی ہے
زمیں ماں ہے
زمیں کی کوکھ سے ہے زندگی قائم—
وہ آخر— بانجھ سورج پر فدا
کیوں ہے؟
زمیں کی گردشوں کا ماحصل
کیا ہے؟
زمیں یہ سوچتی ہوگی
کبھی تو سوچتی ہوگی
زمیں اُس پل کو بھولی تو نہیں ہوگی
کہ جب اس نے
خلائوں میں دہکتا لال گولہ
دور سے دیکھا—
اسی پہلی نظر میں وہ ابد تک
ہوگئی اس کی—!