غم کی پرچھائیں میں درخت رہا
اب کے موسم ہی سخت سخت رہا
جیسے دریا کے دو کنارے ہوں
ہم رہے ، درمیان وقت رہا
زندگی انتظار میں کاٹی
اور یہ انتظار ، سخت رہا
تخت پر کون تھا — نہ دیکھ سکا
بعد میں وہ رہا نہ تخت رہا
کیا رہا اپنے ساتھ زادِ سفر
زخم خوردہ بدن ہی رخت رہا
سب رویے٭ّ انا کی بھینٹ رہے
جو رویہ تھا سخت ، سخت رہا
دکھ تو یہ ہے کہ یہ ہمارا وطن
ایک ہو کر بھی لخت لخت رہا
ایک ہو کر بھی ہم نہ ایک ہوئے
ڈالیوں سے جدا درخت رہا
باہمی گفتگو تھی لاحاصل
سب کا لہجہ بڑا کرخت رہا
وقت کی بات گو زباں پہ رہی
ہاتھ میں اپنے ، اپنا وقت رہا
ہم بھی جاویدؔ وقت سے روٹھے
ڈھونڈتا ہم کو ، اپنا وقت رہا