آپ کو دیکھا تو پہلی بار ، ساری عمر میں
عقل نے آواز دی ، دل نے پکارا ساتھ ساتھ
آپ کو دیکھا تو پھر کیا دیکھنا باقی رہا
کوچے کوچے بجھ گیا درشن جھروکا ساتھ ساتھ
رہ گئے جب ہم اکیلے ، رات کالی ہوگئی
سو گیا بامِ فلک پر تارا تارا ساتھ ساتھ
ژ
الٹ گیا وہ پیالہ ، دعائیں جس میں تھیں
پلٹ کے آگئی دستک ، صدائیں جس میںتھیں
درِ حبیب پہ تالے پڑے جدائی کے
دریچہ بند ہوا التجائیں جس میں تھیں
ہر ایک روزنِ دیوار برف پوش ہوا
تمام ہوگیا موسم ، ہوائیں جس میں تھیں
ژ
وقت سارا گزر گیا ، تنہا
تم کہیں ، میں کہیں رہا ، تنہا
جب زمیں ایک ، آسماں ہے ایک
ہم رہے کیوں جدا جدا ، تنہا
کتنا جاں سوز تھا ، جدا رہنا
جانتا ہے مرا خدا ، تنہا
ژ
عذاب اس سے زیادہ کہاں سے آئے گا
زمیں سے آئے گا یا آسماں سے آئے گا
زمیں کی فصل تو ہم سہہ چکے — تمام ہوئی
غمِ مزید کوئی آسماں سے آئے گا
ہمیں ستائے گی اب اور کس طرح دنیا
جو غم بھی آئے گا اب کس جہاں سے آئے گا
ژ
جو تھا وہ نذرِ دریا ہوگیا سب
لبِ ساحل رہا کچھ بھی نہیں ہے
سخی کو سائلوں نے مار ڈالا
طلب کی انتہا کچھ بھی نہیں ہے
حقیقت مصلحت سے ہارتی ہے
روا یا ناروا کچھ بھی نہیں ہے
ژ
دریچہ چپکے چپکے رو رہا ہے
اندھیرا گھر کے اندر ہو رہا ہے
اگرچہ جاگ اُٹھا٭ّ ہے سویرا
ابھی سورج کو بادل دھو رہا ہے
ژ
شاعری کو پوچھتا کوئی نہیں
شاعری پھر بھی سمندر — کیا ہے یہ
شاعری دل پر اثر کرتی ہے کیوں
شاعری جادو نہ جنتر — کیا ہے یہ
ژ
چار کلچر کے لیے ملک گنوا بیٹھو گے
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے بیٹھو گے ، تو کیا بیٹھو گے
مقتدر طبقے نے تقسیم کیا ہے تم کو
مقتدر طبقے کے قدموں میں ، سدا بیٹھو گے
ژ
ماں زمین کی تہہ سے کیوں فساد اُگتے ہیں
ماں زمین کے ناتے کچھ نہیں تو پھر کیا ہے
جنگ اور جدل سے کیا آدمی کا رشتہ ہے
آدمی کے رشتے سے کچھ نہیں تو پھر کیا ہے
ژ
بارے دنیا سے گئے سارے ڈرانے والے
جانا ، اَن جانا ہر اک شخص میں ڈر ہے موجود
نام اﷲ کا چلتا ہے ابھی دنیا میں
بستی ، بستی کوئی اﷲ کا گھر ہے موجود
ژ
دل کا دروازہ کھلا ر٭ّکھا نہیں
گھر تو ر٭ّکھا ، راستا ر٭ّکھا نہیں
آپ جب سے دل کے اندر آ بسے
پھر کسی سے واسطہ٭ ر٭ّکھا نہیں
ژ
جس دنیا میں وہ رہتا تھا اُس دنیا سے دور رکھا
کیسا یہ آئین بنایا — کیسا یہ دستور رکھا
ہاتھ کھلے تھے ، پائوں کھلے تھے ، طوق نہیں تھا گردن میں
پھر بھی ہمیں دنیا نے کتنا بے بس اور مجبور رکھا
٭۔ جائز خیال کرتا ہوں۔
ژ
لکھنے والے نے قلم توڑ دیا
یہ کہانی نہیں پوری ہوگی
اہلِ دل جاں سے گزر جائیں گے
داستاں پھر بھی ادھوری ہوگی
ژ
اب اُسے یاد کرو گے ، کتنا
اُس کی چاہت میں مرو گے ، کتنا
اور تو اور — اسے چھوڑ دیا
رسمِ دنیا سے ڈرو گے ، کتنا
ژ
موج در موج بدل جاتا ہے
ریت پر کلکِ ہوا کا ّلکھا
نئے مفہوم میں ڈھل جاتا ہے
عہد در عہد خدا کا ّلکھا
ژ
آئنہ خانہ ہے دنیا شاید
آئنو! آئنہ سا ، دیکھتے ہو
ہائے رے شوقِ تماشا ، خود ہی
عکس ہو ، عکس بنا دیکھتے ہو!
ژ
دنیا کے سب شہیدوں میں پیاسا ہے بے مثال
نانا ہیں بے مثال ، نواسا ہے بے مثال
ژ
آسمانوں میں بشر کیسے گزارا کرتا
اس کی نس نس سے عیاں فطرتِ آب و گل ہے
ژ
ہر زباں سے پیار کر سکتے ہیں ہم
شرط یہ ہے پیار سے بولے کوئی
ژ
اور کس رخ تھا سمندر میرا
اور کس رخ مرا دریا جاتا
ژ
لاتا ہے ہر عصر تباہی دنیا پر
رکھتا ہے ہر عصر سکندر پہلے سے
ژ
قیامِ امن کا اس طرح اہتمام ہوا
وہ پیڑ کاٹ دیے فاختائیں جن میں تھی
ژ
آسماں پر آپ کی پرواز سے
ارضِ آدم ہے بہت سہمی ہوئی
ژ
اک اجنبی شجر پہ گزاری تھی ایک رات
سچ پوچھیے تو صرف ہماری تھی ایک رات
ژ
میں کتنا غلط سوچوں ، میں کتنا غلط چاہوں
مجھ سے وہی سرزد ہو ، جو میرا خدا چاہے
ژ
جو مقدر میں نہیں ، اُس سے محبت کرنا
یہی ّلکھا ہے تو کیا ّلکھے سے ّحجت کرنا
ژ
میں جس سے باتیں کروں ہوں اکثر
وہ اپنے اندر کا فرد میں ہوں
ژ
یوں اگر دینا ہو تو مولا نہ دے
بھیج دے دنیا میں اور دنیا نہ دے
ژ
جب ڈالیاں رقصاں ہوں ، مستی میں تو ممکن ہے
لے جائے گی پھولوں کو ، جس سمت ہوا چاہے
ژ
پھول خوش بو ہی نہیں روپ بھی ہے رنگ بھی ہے
لفظ معنیٰ ہی نہیں صوت بھی آہنگ بھی ہے
ژ
لفظ ہر عصر میں تجدیدِ معانی مانگے
ایک اک حرف سے جینے کی نشانی مانگے
ژ
گزرتے وقت سے وابستگی تو ہوتی ہے
گزرتے وقت میں جانا کبھی نہیں ہوتا
ژ
جسم کے اندر سفر میں روح تک پہنچے ، مگر
روح کے باہر رہے اندر نہیں دیکھا گیا
ژ
شاہد جسے کہتے ہیں ، حقیقت میں ہے مشہود
اک آنکھ ہر اک سمت ، ہر اک سُو نگراں ہے
ژ
تماشا دیکھنا مشکل تھا اپنا
شکستِ آئنہ حاصل تھا اپنا