گرمیِ بازار ہی سب کچھ نہیں
شہر و شور و شار ہی سب کچھ نہیں
لکھنے والے کے لیے سوچیں بہت
اک دلِ بیمار ہی سب کچھ نہیں
ہے بہت کچھ عشقِ ناہنجار بھی
عشقِ ناہنجار ہی سب کچھ نہیں
تشنگی دل کی بجھانے کے لیے
چشم و لب ، رخسار ہی سب کچھ نہیں
بوریا بھی ہے بہت ، عزت کے ساتھ
کرسی و دستار ہی سب کچھ نہیں
نو بہ نو آزار ہیں اک دل کے ساتھ
دل کا اک آزار ہی سب کچھ نہیں
آپ کے دیدار کا کہنا ہی کیا
آپ کا دیدار ہی سب کچھ نہیں
گھر کے باہر ہیں ، حریفوں کے حصار
گھر کے اندر یار ہی سب کچھ نہیں
دُوریاں دل کی بڑی سنگین ہیں
درمیاں دیوار ہی سب کچھ نہیں