ہوائوں میں رچا کچھ اور ہی تھا
وہ جو ہم نے پیا ، کچھ اور ہی تھا
اسے چہروں کے جنگل میں نہ ڈھونڈو
وہ چہرے کے سوا کچھ اور ہی تھا
پرندہ مطمئن لگتا تھا لیکن
پرندہ سوچتا کچھ اور ہی تھا
جو باہر لٹ گیا ، کچھ اور ہی تھا
جو اندر لٹ گیا ، کچھ اور ہی تھا
کنارے پر تو بچے کھیلتے تھے
سمندر میں ہُوا کچھ اور ہی تھا
زمانے کی زباں کچھ اور ہی تھی
زمانہ بولتا کچھ اور ہی تھا
تمھارے لفظ تھے جاویدؔ کچھ اور
تمھارا ّمدعا کچھ اور ہی تھا