بدن کے گھر سے نکل جائوں گا کسی لمحے
ڈھلان پر ہوں پھسل جائوں گا کسی لمحے
ہوں مشتِ خاک تو اڑ جائوں گا کسی لمحے
جو برف ہوں تو پگھل جائوں گا کسی لمحے
بندھا ہوا ہوں شب و روز کے اجالوں سے
خود اپنی چھائوں میں ڈھل جائوں گا کسی لمحے
وہ سرد آگ ہے جس نے مجھے لپیٹا ہے
نظر نہ آئے گی جل جائوں گا کسی لمحے
جو حرف حرف گزاری ہے زندگی اب تک
سو حرف حرف میں ڈھل جائوں گا کسی لمحے
حصارِ زیست میں اک عمر کاٹ دی جاویدؔ
حصار سے بھی نکل جائوں گا کسی لمحے