"یا اللہ میری بچی بخیر و عافیت ہو۔۔۔ اسکی حفاظت فرما"۔ دل میں اٹھتے ہزار طرح کے وسوسے،،، آنکھوں میں نبیہا کو صحیح سلامت دیکھنے کی آرزو لیئے،، گیٹ پہ ٹک ٹکی باندھے وہ لان میں بے چین بیٹھی تھی۔
چند لمحوں میں گیٹ کھلا تو زینت کے دل کی ہشاش دنیا ویران ہو گئی تھی۔۔۔ بوکھلا کر چیئر سے اٹھتے وہ نبیہا کی جانب لپکی۔
"نبیہا میری بچی کیا ہوا ہے؟؟۔۔۔۔۔ تمھاری یہ حالت؟؟؟۔۔۔۔۔ بتاو نا نبیہا میرا دل بیٹھا جا رہا ہے"۔ نبیہا کی غیر ہوتی حالت نے زینت کے دل میں جیسے درد ناک سانحے کی مہر لگا دی تھی۔
مٹی سے میلے کپڑے،، پیٹ اور بازووں سے چاک شرٹ،، بکھرے بال،، چہرے پہ جا بجا خراشیں،، ہونٹوں کے دائیں کونے پہ زخم تھا جو خون کے آنسو روتے اب چپ ہو چکا تھا۔
زینت نے فورا اپنی چادر اتارتے اسکے گرد کی پھر اسکے وجود کو بمشکل حرکت دیتے گھر کے اندرونی جانب بڑھ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اپنے روم میں وہ بیڈ کے تاج کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھا۔۔۔ دائیں ٹانگ کھڑی جبکہ بائیں سیدھی کر رکھی تھی۔۔۔ دائیں ٹانگ کے گھٹنے پہ اسنے اپنا دائیاں بازو ٹکایا تھا جبکہ ہاتھ کو ڈھیلا چھوڑا تھا۔۔۔ سفید شرٹ کے بٹنز مکمل کھلے تھے جس سے اسکا سینہ نمایاں تھا۔
بے ضمیر انسان سے بدتر کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔ یہ بات اس پہ پوری طرح فٹ بیٹھتی تھی۔۔۔۔ اسکے مردہ ضمیر نے ایک معصوم روح کو رسوائی اور ذلت کے تاریک کنویں میں دھکیل دیا تھا۔۔ یہ ہولناک سانحہ اسکے لیئے ذرا بھی غرور شکن ثابت نا ہوا۔
دن والے سانحے کو یاد کرتے اسکے لبوں پہ فاتحانہ مسکراہٹ تا ہنوز رواں تھی۔۔۔ جو اسکے انسان نہیں درندہ ہونے کا پتہ دے رہی تھی۔
فون پہ رنگ ٹون اپنے پورے زور پہ چنگاڑی تو اسنے سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھاتے کال ریسیو کی۔
"ہیلو بلال میں تمھیں کب سے کالز کر رہی ہوں تم میری کال اٹینڈ کیوں نہیں کر رہے؟؟؟ اور یہ تم دن کے کہاں غائب ہو؟؟"۔ دوسری جانب روہینہ کی بھڑکیلی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
"کچھ نہیں یار بس سو رہا تھا اور فون سائلنٹ پہ تھا ۔۔۔ اس وجہ سے دیکھ نا سکا سوری"۔ عادت ثانیہ کے تحت وہ جھوٹ بولنے میں سرخرو رہا۔
"اچھا کوئی بات نہیں ۔۔۔ یہ بتاو تم نے مجھ سے کوئی بات کرنی تھی؟؟۔۔۔ تمھارا میسج آیا تھا"۔
"بات؟؟۔۔۔ ہ۔ ہاں روہینہ وہ میں تم سے کل ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اسی لیئے میسج کیا تھا کہ تم کچھ وقت نکال کر مجھے عنایت کرو"۔ ذہن پہ ہلکا سا دباو ڈالتے وہ گویا ہوا۔
"اچھا ٹھیک ہے میں کل چار بجے یونی کے باہر ملوں گی تم آ جانا۔۔۔ یاد سے بھول نا جانا ۔۔۔ اوکے پھر کل ملاقات ہوگی بائے"۔ باور کراتے ہی اسنے کال کاٹ دی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سورج کی زراندوز جوش مارتی کرنیں بالکونی کے گلاس ڈور کو چیرتیں روم میں داخل ہو کر اسے پر نور بنا کر نور صبح کا خوبصورت پیغام دے رہی تھیں۔
احتشام سویرے ہی ڈیوٹی پہ چلا گیا تھا۔۔۔ روم کی صفائی کرتے وہ روم سے نکل گئی تھی۔۔۔ ہلکے قدم رکھتے اسنے احتیاط برتتے سیڑھیاں عبور کیں۔
"ارے احتشام آپ اتنی جلدی آ گئے؟"۔ متضاد سمت سے آتے احتشام کا وجود نین تارا کیلیئے خاصی حیرت کا سبب بنا۔۔ احتشام کے بعد اسکی نظروں کی رسائی ان لڑکیوں تک پہنچی جو احتشام کے عقب میں تھیں۔
"مجھے چھوڑو تم یہ بتاو روم سے باہر کیوں آئی؟؟ تمھیں تو میں نے ریسٹ کرنے کا بولا تھا"۔ نین تارا کے قریب آتے اسنے خفگی کا اظہار کیا۔
"احتشام آج تم جلدی کیسے آ گئے؟؟"۔ احتشام کے روم میں جانے کی غرض سے ممتاز بھی اس جانب آئی تھی۔
"جی ماما بس تھوڑی دیر کیلیئے ہی آیا ہوں ۔۔۔ اچھا یہ سنبل ہے اور یہ نازلی۔۔۔ سنبل گھر کے کام سنبھالے گی اور نازلی کم عمر ہونے کی وجہ سے صرف اور صرف نین تارا کی خدمت پہ معمور رہے گی۔۔۔ نازلی میری بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ نین تارا کو کسی قسم کی کوئی بھی تکلیف نا پہنچے۔۔۔ اسکے قدم روم تک محدود رکھنا تمھاری ذمہ داری ہے"۔ ممتاز اور نین تارا کو آگاہ کرتے اسنے کم سن خادمہ کو سختی سے باور کراتے سرزنش کی جس پہ اسنے سر ہلا دیا تھا۔
"مگر احتشام میں اپنے روم میں کیسے رہ سکتی ہوں؟؟"۔ نین تارا نے بے زارگی سے کہا۔
"احتشام بالکل ٹھیک بول رہا ہے نین تارا جب نازلی اور سنبل ہیں تو تمھیں فکر مند ہونے کی قطعا ضرورت نہیں"۔ ممتاز نے احتشام کی پیروی کی۔ " اچھا نین تارا جو میں بات کرنے آئی تھی وہ تو بھول گئی۔۔۔ یہ تعویز میرے پاس برسوں سے ہے سوچا تھا احتشام کی بیوی کو دوں گی جب وہ اس گھر کو وارث دے گی۔۔۔۔ اب اسکی ضرورت تمھیں ہو گی ،یہ تم رکھ لو"۔ ماتھا تھپکاتے اسنے نین تارا کی جانب ہاتھ میں پکڑا تعویز بڑھایا جو مستعطیل نما ٹھوس سونے کا بنا تھا اور اس پہ ای- ایس کندہ تھا۔
"ماما یہ تعویز تو"۔ تعویز کو دیکھتے احتشام کے منہ سے بے ساختہ الفاظ نکلے۔
"ہاں احتشام یہ وہی تعویز ہے جو بی جان نے مجھے دیا تھا۔۔۔۔ تمھارے بعد یہ تعویز روہینہ کو باندھا تھا اب اسکی ضرورت میرے پوتے کو ہو گی"۔ ممتاز نے تفصیل دی جسے احتشام اور نین تارا دلچسپی سے سن رہے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"بلال ۔۔۔ بلال یہ میں کیا سن رہا ہوں؟"۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوتے وہ نزاکت سے بال بنانے میں لگا تھا جب رفیق برہمی سے اسکے روم میں داخل ہوا۔
"کیا ہوا ڈیڈ؟؟؟ آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں؟"۔ ہنستے ہی وہ مطمئن انداز میں بولتے اسکی جانب دھیرے سے پلٹا۔
"کیونکہ جو حرکت تم نے کی ہے وہ سراہے جانے کے بالکل قابل نہیں"۔ بلال کے چہرے سے ہنوز پھوٹتی مسکراہٹ نے اسے مزید طیش دلایا تھا۔
"ہوا کیا ہے ڈیڈ ۔۔۔ آپ پریشان کیوں ہیں؟؟"۔ رفیق کے چہرے کے تاثرات بھانپتے وہ اسکے قریب آ کر کہنے لگا۔
"کیا یہ سچ ہے کہ تم نے نصیر الدین کی بیٹی کے ساتھ؟؟"۔ غصے پہ ضبط کرتے اسنے دھیمے لہجے میں کنفرم کیا۔
"جی۔۔۔۔ اور آپ اتنے ہائپر کیوں ہو رہے ہیں یہ تو عام بات ہے ۔۔۔ اتنی سی بات کیلیئے آپ اوور ری ایکٹ کیوں کر رہے ہیں؟" تمسکن آمیز انداز میں بولتا وہ دوبارہ سے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گھوما۔
"یہ اتنی سی بات نہیں ہے بلال ۔۔۔ سراسر حماقت کی بنا پر تم نے۔۔۔۔ کیا تمھیں لڑکیوں کی کمی تھی جو تمھیں اس سے ہاتھ صاف کرنے پڑے؟؟ بلال تمھیں تلوار پکڑنا تو آ گئی مگر چلانا نہیں آئی"۔ بلال کے لاپرواہ رویے پہ وہ مزید تپ اٹھا۔ " اب مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا۔۔ تم پہ رہا تو نجانے کیا کیا دیکھنے کو ملے گا"۔ بولتے ہی وہ روم سے نکل گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ہاتھ میں فون پکڑے وہ ڈائننگ روم میں داخل ہوا جب اسکی نظر مقابل صوفے پہ براجمان رفیق پہ پڑی جو اسی کا منتظر تھا اور اسکے آتے ہی صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"سلام نصیر صاحب"۔
"جی رفیق صاحب کہیئے؟"۔ قدم اٹھاتا وہ رفیق کی دائیں جانب آ بیٹھا تھا ساتھ ہی اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
الفاظ کی مجموعہ بندی کے بعد اسنے قصد دل کے ساتھ اس مجموعے کو لبوں تک دخل یابی دی۔
"میں جانتا ہوں نصیر صاحب ایک بیٹی کا باپ ہونے کی حیثیت سے آپکا دل جبرا کس اذیت کے گھونٹ پینے پر مجبور ہے۔۔۔۔ میں ہرگز اسکا ازالہ نہیں کر سکتا بلال کی اس غلطی کیلیئے میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں"۔
"رفیق صاحب بچوں کی ہر غیر معیاری اور غیر مہذب حرکت کو معمولی غلطی کہہ دینے والے والدین درحقیقت ان کے بہت بڑے دشمن کہلاتے ہیں"۔ نہایت آزمودہ کار انداز میں نصیر نے جواب دیتے سرزنش کی۔
"دیکھئے نصیر صاحب میں آپکی بات سے سولہ آنے متفق ہوں ۔۔۔ آپکا کہنا بجا ہے مگر نصیر صاحب عزت ایک ایسی شے ہے جس کی مرادف باذ پس کسی صورت ممکن نہیں۔۔۔ میں اپنے بیٹے کی اس حرکت پہ بہت نادم ہوں"۔ بات سنبھالنے کی کوشش میں اسنے مزید الفاظ لڑی میں پروئے تھے۔۔ اسی لمحہ نبیہا کا وہاں سے گزر ہوا جب اسکی سماعتوں میں رفیق کی بات رقص کرتی اس کے پیروں میں زنجیر ڈالتی اسکے قدم وہیں روک گئی۔
"نصیر صاحب ہم جیسے لوگوں کیلیئے اس ملک میں رہنا نہایت دشوار ہے۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔۔۔ دیکھئے نصیر صاحب عزت ایک بار چلی جائے تو کسی صورت واپس نہیں آ سکتی۔۔۔ میں اسکا ہرجانہ دینے کو تیار ہوں"۔ پس و پیش رفیق نے اپنی بات مکمل کر دی۔
"رفیق صاحب آپکا کہنے کا مطلب ہے کہ میں اپنی بیٹی کا سودا کر لوں"۔ نصیر نے سرد مہری سے کہا۔
"نہیں نصیر صاحب میں تو بس امن و امان کا سوداگر ہوں۔۔۔۔ دیکھیں آپ اچھے سے جانتے ہیں کہ ہمارے علاقے کی پولیس بھی ہماری مٹھی میں نہیں صرف اور صرف اس ایس پی کی بدولت۔۔۔۔ اگر اسے اس معاملے کی بھنک بھی پڑ گئی تو میرے ساتھ ساتھ آپکی اور آپ کے خاندان کی بدنامی ہے۔۔۔ پھر برسوں سے کمائی عزت کو یقینا آپ بھی پل بھر میں ملیامیٹ نہیں ہونے دینا چاہیں گے۔۔۔۔ امید ہے آپ میری بات پر غور ضرور کریں گے"۔ بولتے ہی اسنے نشست چھوڑ دی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
یونیورسٹی سے واپسی پر وہ بلال سے ملنی کی غرض سے ڈیوائن ریسٹورنٹ میں سلیقے سے لگائے گئے چیئر ٹیبل میں سے ایک پہ بیٹھی تھی۔
"ہیلو"۔ اپنے ہاتھ میں فائل پکڑے وہ روہینہ کے مقابل آ بیٹھا تھا۔
"تم ہمیشہ لیٹ ہوتے ہو"۔ روہینہ نے بازو میز پہ ٹکاتے ہاتھوں پہ چہرہ جما لیا تھا۔
"ٹھیک ویسے ہی جیسے تم پہلے پہنچ جاتی ہو"۔ وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔
"یہ کونسی فائل ہے؟"۔ ہاتھ بڑھاتے اسنے بلال کے سامنے رکھی فائل اٹھا لی۔
"بنگلے کے ڈاکومنٹس"۔ آنکھوں کو عیاں کرتے اسنے سن گلاسز اتار کے ٹیبل پہ رکھیں۔
"تو یہ تم اپنے ساتھ لے کر کیوں گھوم رہے ہو؟؟"۔ فائل کے صفحات پلٹتے اسنے سرسری نگاہ دوڑائی۔
"تمھارے لیئے"۔
بلال کے ان لفظوں نے روہینہ کے ہاتھ کی حرکت کو ساکت کر دیا تھا۔
"میرے لیئے؟"۔ بے یقینی کی گرفت میں آتے اسنے بات دوہرائی۔
"ہاں روہینہ تمھارے لیئے۔۔۔ تمھاری برتھ ڈے پہ تمھیں گفٹ نا دے سکا تھا کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایسا کونسا گفٹ دوں جو تمھارے قابل ہو۔۔۔ پھر سوچا اس سے اچھا گفٹ تمھارے لیئے ہو ہی نہیں سکتا"۔ تفصیل دیتے اس نے چیئر کی بیک سے پشت ٹکا لی۔
"سچ بلال؟؟۔۔۔ یہ بنگلہ واقعی میرا ہے؟"۔ روہینہ جیسے آسمان میں اڑنے لگی تھی۔
"یقین نہیں تو دیکھ لو۔۔۔ ان ڈاکومنٹس پہ تمھارا نام لکھا ہے جو اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ تم اسکی لیگلی آنر ہو"۔ روہینہ کے بائیں رخسار کو تھپتھاتے اسنے محبت آمیز انداز میں کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"نین تارا کیا کر رہی ہو؟؟"۔ سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھاتے اسنے ایک نظر اسے دیکھا پھر بیڈ پہ بیٹھ گیا تھا۔
"پاکستان میں کتنے یتیم خانے ہیں یہ سرچ کر رہی ہوں"۔ احتشام کے مخاطب کرتے اسنے فون سے نگاہ ہٹا کر احتشام کو دیکھا جو تاج کے ساتھ سر لگائے دلفریب نگاہ نین تارا پہ منجمد کیئے ہوئے تھا۔
"آرفنیج۔۔۔ مگر وہ کیوں؟؟"۔ اسے حیرت ہوئی۔
"ویسے ہی دیکھنا چاہتی ہوں کہ ایسے کتنے ادارے ہیں جو یتیم بچوں کو کھانا، بستر اور سر پہ چھت مہیا کر کے انکی کفالت کرتے ہیں۔۔۔۔۔ انکے لیئے جینے کا سامان میسر کرتے ہیں"۔ فون سائیڈ پہ رکھتے وہ احتشام کے قریب ہوئی اور اپنا سر اسکے بائیں کندھے پہ ٹکا کر پرسکون ہو گئی۔
"ویل ڈن ۔۔۔۔ میری جان خوبصورت ہونے کیساتھ ساتھ خوب سیرت اور عقل مند بھی ہے"۔ احتشام نے بولتے ہی نین تارا کے سر پہ اپنا سر رکھ لیا ۔۔۔۔ اسی اثنا میں دروازے پہ دستک ہوئی۔
"آ جاو"۔ اپنے درمیان فاصلہ قائم کرتے نین تارا احتشام سے دور ہٹی۔
"نازلی مجھے دودھ کی بالکل طلب نہیں تم کیوں لے آئی؟؟ ابھی شام کو ہی تو پیا تھا"۔ نازلی ہاتھ میں دودھ کا گلاس لیئے روم میں داخل ہوئی جس پہ نین تارا چڑ گئی۔
"یہ کیا بات ہوئی نین تارا ۔۔۔۔ کوئی نخرہ نہیں چلے گا۔۔۔۔ یہ لو اور فورا پی جاو"۔ بیڈ سے اٹھتے احتشام نازلی کی جانب بڑھا پھر اسکے ہاتھ سے گلاس پکڑے نین تارا کے سامنے جا بیٹھا تھا۔
"نہیں نا احتشام سچ میں میرا بالکل دل نہیں چاہ رہا"۔ نین تارا نے معصومیت بھرے انداز میں اسے کنونس کیا۔
"نین تارا ابھی میں یہاں ہوں تو تم ایسے کر رہی ہو۔۔۔ اگر نہیں ہوں گا تو تم کیا کرو گی؟"۔ احتشام نے سختی سے کہا۔
"کیوں ۔۔۔ آپ تو ہمیشہ میرے پاس ہی رہیں گے۔۔۔۔ کہاں جانا ہے آپ نے؟؟"۔
"ہو سکتا ہے مجھے اسی ہفتے اسلام آباد جانا پڑ جائے ایک ٹریننگ کے سلسلے میں ۔۔۔۔ تو کیا میں وہاں بھی تمھاری وجہ سے یونہی پریشان رہوں گا"۔ نین تارا کی سانسیں جیسے رک سی گئی تھیں۔
"نین تارا دو تین دن کی بات ہوگی۔۔ پھر انشاءاللہ میں اپنی جان کے پاس"۔ گلاس کو ٹیبل پہ رکھتے اسنے نین تارا کا ہاتھ تھاما جہاں کوئی حرکت نا تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆