احتشام نے دانستہ اپنا تبادلہ حیدر آباد کروا لیا تھا ۔۔۔ ان سالوں نے احتشام کی ذاتی زندگی بھی بے حد متاثر کی تھی گرچہ وقت تیزی سے گزر رہا تھا مگر گزرتے وقت کیساتھ اسکے قلب اور روح پہ لگے زخم بھی گہرے ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔ جہاں چہرے پہ مسکراہٹ،، ہنسی اور سرشاری ہوا کرتی تھی اسکی نسبت اب سنجیدگی اور غصے کا بسیرا تھا ۔۔۔ طبع اشتعال ہونے کے ساتھ ساتھ احتشام غصہ ور ہو گیا تھا اسکے سر پہ جیسے غصے کے بادل ہمہ وقت منڈلاتے رہتے تھے۔
سات بجے کیجوئل ڈریس یونیفارم سے تبدیل کرتے احتشام ڈائننگ ہال میں آن پہنچا جہاں خالی ٹیبل اسکے طیش کو مزید طول دے گیا۔
"عالیہ ۔۔۔ عالیہ"۔ کچن کی جانب منہ کا رخ کیئے وہ دھاڑا۔
"ج۔ ج۔ جی صاحب؟"۔ خادمہ گرتے پڑتے احتشام کی خدمت میں حاضر ہوئی۔
"کیا تمھیں معلوم نہیں میں نے جلدی جانا ہوتا ہے؟؟ ناشتہ ابھی تک کیوں نہیں لگایا؟؟"۔ احتشام پوری قوت سے اس پہ گرجا۔
"صاحب ناشتہ تیار ہے"۔ خادمہ نے جھکا سر احتشام کی جانب اٹھایا۔
"تو میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو ۔۔۔ لے کر آو فورا"۔ آو دیکھا نا تاؤ خادمہ جھٹ سے کچن کی جانب لپکی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مشی ۔۔۔ مشی میری جان کہاں ہے؟؟"۔ نین تارا آوازیں لگاتی اپنے روم کی جانب بڑھی۔
"مشی"۔ نین تارا نے روم کا دروازہ کھولے سامنے فرش پہ بیٹھی مشعل کو پیار سے پکارا۔
کم سن تین سالہ بچی اپنے سامنے کتاب کھولے ہاتھ میں پینسل دبائے اس پہ نقشے بنانے میں محو تھی جب تین تارا کی آواز پہ اسنے چہرہ اٹھا کر نین تارا کو دیکھتے اسکی جانب مسکراہٹ اچھالی۔
"میری چندہ کیا کر رہی ہے؟؟"۔ نین تارا اسکے قریب جا بیٹھی۔
"میں کام کر رہی ہوں"۔ نین تارا کی جانب دیکھتے اسنے معصومیت بھرے انداز میں کہا۔
"کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟؟"۔ دروازے پہ دستک کے ساتھ مردانہ آواز گونجی۔
"ارے تقی وہاں کیوں کھڑے ہو؟؟ آو نا"۔ دروازے کی جانب دیکھتے نین تارا نے کہا۔
"دیکھو مشعل میں آپ کیلیئے کیا لایا ہوں ۔۔۔ چاکلیٹس"۔ مشعل کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھتے تقی نے ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹس اسکے حوالے کیں جنہیں پکڑتے ہی وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔۔۔ مشعل کو بانہوں میں لیتا تقی اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔ نین تارا بھی تقی کے مقابل کھڑی ہوئی۔
"تھینک یو سو مچ تقی ۔۔۔ میں تمھاری قرض دار ہوں تم نے جو میری ذات پہ احسان کیا ہے اسکا بدلہ میں ہرگز ادا نہیں کر سکتی ۔۔۔ آج سے چار سال پہلے جب میں خود گزشتہ تھی تم نے مجھے اس اورفنیج میں جگہ دلوا کے میری ہستی کو مزید رسوا ہونے سے بچایا"۔ غیر معین مدت پہ نین تارا کے ذہن میں قدیمی بات آ ٹھہری۔
"تمھیں میرا شکرگزار ہونے کی قطعا ضرورت نہیں یہ تو اس ذات کا احسان ہے مجھ پہ کہ اسنے اس نیک عمل کیلیئے مجھے چنا اور تمھارے ساتھ ساتھ میں اس ننھی سی جان کا بھی رکھوالا بنا ۔۔۔۔ ہے نا مشی؟"۔ بولتے ہی اسنے مشعل کو دیکھا جہاں ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹس کی بدولت رونق اور چمک تھی۔
"تم صرف مشعل کا دھیان رکھو باقی پرانی باتیں یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہم"۔ مشعل کو نین تارا کے سپرد کرتے تقی روم سے نکل گیا تھا۔
"ماما اور مشی ابھی بازار جائیں گے مشی کیلیئے پیارے پیارے کپڑے لینے"۔ مشعل کی پیشانی چومتے نین تارا مشعل کو بیڈ پہ بٹھاتی وارڈ روب کی جانب بڑھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مخصوص سرکاری پراڈو کی پچھلی سیٹ پہ وہ شان و شوکت اور ٹھاٹ سے بیٹھا تھا۔
"رحیم گاڑی تیز چلاو ۔۔۔ میں پہلے ہی بہت لیٹ ہوں"۔ غصے میں تنبیہ کرتے احتشام نے دائیں سائیڈ سیٹ پہ رکھا فون اٹھا کر اسے ٹٹولنا شروع کیا۔
ڈرائیور کے بائیں ہاتھ پہ انسپکٹر عمر تھا جو احتشام کا بازو گردانہ جاتا تھا ۔۔۔ پولیس فورس میں ایک عمر ہی تھا جسکی بات احتشام توجہ اور تحمل سے سنتا تھا یہاں تک کہ بعض اوقات مشورہ بھی کر لیتا تھا۔
"کیا ہوا تم نے گاڑی کیوں روک دی؟؟"۔ رفتار میں کمی کے بعد ڈرائیور نے بریک پہ پیر رکھا جس پہ احتشام چونکا۔
"سر لگتا ہے کسی کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے"۔ شیشے کے پار لوگوں کا ہجوم دیکھتے عمر کو تشویش ہوئی۔
"کیا مصیبت ہے ۔۔۔ جا کر دیکھو کیا مسئلہ ہے؟"۔ احتشام مزید غیض و غضب کا شکار ہوا ۔۔۔ احتشام کے الفاظ کی لاج رکھتے عمر دروازہ کھولتے ہجوم کی جانب بڑھا پھر معلومات لیتے دربار احتشام کی سمت آیا جو اب کھلی ہوا میں کھڑا تھا۔
"کہو؟"۔ عمر کو اپنی جانب آتا دیکھ احتشام نے کہا۔
"سر ایک خاتون کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے جسے بروقت ہوسپٹل منتقل کر دیا گیا ہے مگر اسکی کم سن بیٹی یہیں ہے"۔ عمر نے وضاحت کی۔
"آج کا کوئی دن ہی منحوس ہے ۔۔۔ وہ بچی کدھر ہے؟؟ اسے لے آو"۔ دروازہ کھولتے اسنے سیٹ پہ رکھا فون اٹھا کر نمبر ڈائل کیا۔ "ہاں ایسا کرو میٹنگ کل پہ ملتوی کر دو امیجیئیٹلی"۔ کال کاٹتے احتشام نے فون پاکٹ میں رکھا پھر نظریں عمر کی جانب اٹھیں جو بانہوں میں بچی لیئے اس طرف آ رہا تھا۔
بچی کے چہرے پہ احتشام کی نگاہ منجمد ہوئی جو ماں سے بچھڑنے کے بعد زار و قطار رو رہی تھی۔
احتشام کی سیاہ ویران آنکھوں میں قدیم خوابوں نے دوبارہ انگڑائی لی۔۔۔ بچی کو بانہوں میں لیتے احتشام نے اسکے آنسو صاف کیئے پھر پیشانی پہ بوسہ دیا۔
"سر اس بچی کا کیا کرنا ہے؟؟"۔
"یہ بچی میرے پاس ہی رہے گی تم ہوسپٹل جا کے اسکی ماں کی خبر لو اور مجھے انفام کرو"۔ بولتے ہی وہ پراڈو کی جانب گھوما جس پہ عمر نے آگے بڑھتے فورا سے دروازہ کھولا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ہوسپٹل کی تفصیل لیتے عمر بھی ہوسپٹل پہنچ گیا تھا۔۔ احتشام کے حکم کی تکمیل کرتے عمر نے بچی کی ماں کے متعلق بھی مطلوبہ معلومات حاصل کر لیں تھیں جو اس وقت آپریشن تھیٹر میں زیر علاج تھی۔
"ڈاکٹر اب پیشنٹ کی حالت کیسی ہے؟؟"۔ آپریشن تھیٹر سے باہر آتی ڈاکٹر عمر کی توجہ کا مرکز بنی۔
"ایکسیڈنٹ کی وجہ سے پیشنٹ کے جسم میں کانچ کے ٹکڑے چبھ گئے تھے جنہیں ہم نے نکال دیا ہے اب پیشنٹ خطرے سے باہر ہے مگر ہمیں انکے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا ہوگا"۔ ڈاکٹر نے تفصیل دیتے صورت حال سے آگاہ کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عالیہ نے بچی کو نہلا کر اسکے کپڑے بدل دیئے تھے جبکہ انجان چہروں کے مابین وہ پاک روح خوف اور ڈر کا شکار تھی جس کے باعث اسکے رونے میں ذرا بھی قلت نا ہوئی۔۔۔ احتشام تک اسکے رونے کی آواز پہنچنے کی دیر تھی وہ آواز کے تعاقب میں اپنے قدم اٹھانے لگا تھا۔
"عالیہ تم سے ایک بچی نہیں سنبھالی جا رہی ۔۔۔ ادھر لاو"۔ احتشام کا دل پسیجا اور کلیجا منہ کو آ گیا تھا۔ "مجھے لگتا ہے اسے بھوک لگی ہے ۔۔۔ تم جا کے فیڈر بنا لاو"۔ عالیہ کو بولتے احتشام نے بچی کو بانہوں میں بھرا اور اپنے روم کی جانب بڑھ گیا۔
"گڑیا نہیں روتے ماما آ جائیں گی ۔۔۔ ششششش"۔ احتشام نے اسکا سر کندھے پہ رکھتے اسے چپ کروانے کی کوشش کی۔ "یہ دیکھو یہ کیا ہے؟؟ ۔۔۔ ابھی ہم کارٹونز دیکھیں گے ۔۔۔ ابھی گڑیا چپ کر جائے گی میں گڑیا کو کارٹونز دکھاتا ہوں ایک منٹ"۔ بیڈ پہ بیٹھتے احتشام نے بچی کو گود میں بٹھا کر پاکٹ سے فون نکالا اور یو ٹیوب پہ ہزار طرح کی ویڈیوز چلانا شروع کیں جس پہ وہ بچی سکرین پہ چلتے لوگوں کو دیکھ حیران ہوئی اور چپ سادھ لی۔
عالیہ بھی فیڈر لیئے احتشام کے روم میں داخل ہوئی اور یہ دیکھ کر متحیر تھی کہ بچی مکمل خاموش ہے۔
"صاحب ایک بات کہوں؟؟"۔ فیڈر احتشام کی جانب بڑھاتے عالیہ نے ڈرتے کہا۔
"کہو"۔ احتشام نے فیڈر سائیڈ پہ رکھا۔
"یہ بچی آپکے پاس یوں پرسکون ہے جیسے آپکے ہاتھوں پروان چڑھی ہے ۔۔۔ چند گھنٹوں میں ہی آپ سے مانوس ہو گئی"۔ احتشام کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کے دو بج رہے تھے حسب عادت احتشام کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ۔۔۔ آج مضطرب دل کی حالت قدرے سنبھلی تھی جسکی وجہ اسکے سامنے نیند کا مزہ لوٹتی وہ بچی تھی جسکا معصوم چہرہ نیند کی آغوش میں اور بھی پیارا لگ رہا تھا۔
آدھی رات کے باوجود احتشام کا روم مکمل روشن تھا۔۔۔ بیڈ کے تاج کے ساتھ ٹیک لگائے وہ اپنے برابر لیٹی بچی کو نگاہ حسرت سے دیکھ رہا تھا ۔۔ اسکا شکستہ دل ایک بار پھر جینے کی امنگ لیئے ہوئے تھا ۔۔ اسکے اجڑے چمن میں پھر سے آس کا کنول کھلا تھا ۔۔ احتشام کا پرارمان پرانا خواب جیسے تعبیر پا گیا تھا ۔۔۔۔ اس کے لبوں پہ الفت آمیز خفیف ہنسی تا ہنوز لہرا رہی تھی ۔۔۔ کچھ پل بعد بچی کے آدھوں آدھ لیٹتے احتشام نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مشی ۔۔۔ مشی"۔ جونہی اسنے بے ہوشی کو شکست دیتے آنکھیں کھولیں اپنی بیٹی کا عکس اسکی آنکھوں میں آ سمایا جس پہ وہ تلملا اٹھی۔
اسکی آواز سنتے عمر اسکے روم میں داخل ہوا جو اسکی دیکھ بھال پہ معمور تھا۔
"دیکھیں آپکی بیٹی بالکل ٹھیک ہے وہ ابھی سر کے گھر موجود ہے آپ ریسٹ کریں جیسے ہی آپکی طبیعت ٹھیک ہو گی آپ اس سے مل لیجیئے گا"۔ عمر نے اشک شوئی سے کہا۔
"میں ٹھیک ہوں مجھے کچھ نہیں ہوا پلیز میری بیٹی مجھے واپس لا دو"۔ نین تارا نے ہاتھ جوڑتے اسکی منت کی۔
"ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہوں مگر آپ پرسکون رہیں"۔ بولتے ہی وہ روم سے نکل گیا تھا۔
احتشام کے تند مزاج کے باعث عمر نے ڈرتے اسکا نمبر ڈائل کیا جو کچھ پل کی تاخیر سے اٹھا لیا گیا تھا۔
"کہو عمر؟"۔
"سر خاتون کو ہوش آ گیا ہے وہ بچی سے ملنے پہ بضد ہے"۔ عمر نے آگاہی دی۔
"ٹھیک ہے تم بچی کو خاتون کے سپرد کر دو ۔۔۔ میں میٹنگ میں ہوں معاملہ تم دیکھ لو"۔ رابطہ منقطع کر دیا گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
دن بھر کا تھکا ہارا وہ شام چار بجے اپنے روم میں داخل ہوا ۔۔۔ پینٹ کی پاکٹ سے فون نکالے اسنے بیڈ پہ رکھا پھر خود بھی وہیں بیٹھ کر خود کو پرسکون کیا۔
"آو عالیہ"۔ ہا تھ میں پانی کا گلاس لیئے عالیہ دہلیز پہ کھڑی تھی جب احتشام نے اسے کہا۔
"صاحب انسپکٹر عمر اس بچی کو لینے آئے تھے تو میں نے وہ تمام چیزیں بھی انکو دے دیں تھیں جو آپ بچی کیلیئے لائے تھے"۔ عالیہ نے اسے آگاہ کیا۔
"ٹھیک کیا تم نے ویسے بھی وہ میرے کسی کام کی نہیں تھیں ۔۔۔ میرے لیئے کھانا لگا دو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں"۔ پانی حلق سے اتارتے احتشام نے گلاس عالیہ کی جانب بڑھایا۔
"جی صاحب"۔ بولتے ہی وہ باہر کی جانب بڑھی۔
بیڈ سے اٹھتے احتشام نے واش روم کا رخ کیا۔
چند منٹوں بعد سفید شلوار قمیض زیب تن کیئے واش روم سے نکلتے وہ بیڈ کی جانب آیا جہاں اسکی نظر زمین پہ گرے تعویز پہ پڑی جو اسے زمانہ ماضی کی صف پہ چھوڑ آیا تھا۔۔ ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ ہی احتشام نے فورا سے بیڈ پہ رکھا فون لیا اور دوڑتا روم سے نکل گیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ریش ڈرائیونگ کا سہارا لیتے احتشام فورا سے ہوسپٹل پہنچا ۔۔۔ برق رفتاری سے وہ ہوسپٹل کے ریسپشن کے قریب جا کھڑا ہوا۔
"ایکس کیوز می"۔
"یس سر ۔۔۔ ہاو کین آئی ہیلپ یو؟؟"۔ احتشام کی آواز پہ ریسیپشنسٹ اسکی جانب گھومی۔
"آج صبح ایک خاتون کو یہاں لایا گیا تھا ایکسیڈنٹ کیس تھا کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ وہ کس روم میں ہے؟؟"۔ احتشام کی پیشانی پہ اوس کے قطرے آ ٹھہرے۔
"ون منٹ"۔ بولتے ہی اسنے سامنے رکھے مانیٹر پہ نظر گاڑھے کی بورڈ کے بٹنز پرس کرنا شروع کیئے۔ " سر وہ خاتون ڈسچارج ہو چکی ہیں"۔
"ایسے کیسے ڈسچارج ہو گئیں؟؟ آپکے پاس انکا فون نمبر یا ایڈریس کوئی تو موجود ہو گا؟"۔ بولتے ہی اسنے مزید پوچھا۔
"سوری سر ہمیں انکے بارے میں کوئی معلومات نہیں"۔ نفی کرتے ہی ریسیپشنسٹ نے معذرت کی۔
دل سکستگی کے عالم میں احتشام ہوسپٹل سے نکل آیا تھا۔
"میں ہوسپٹل کے باہر ہوں تم فورا پہنچو"۔ نمبر ڈائل کرتے احتشام نے فون کان کے ساتھ لگایا۔
بیس منٹ کے وقفے کے ساتھ ہی عمر احتشام کے روبرو آ کھڑا ہوا۔
"کیا ہوا سر آپ پریشان لگ رہے ہیں؟"۔ احتشام کے چہرے کے تاثرات بھانپتے عمر نے تخمینہ کیا۔
"عمر جب تم نے بچی خاتون کے حوالے کی تھی تو کیا اسنے اسی وقت ڈسچارج مانگا تھا؟؟"۔
"جی سر بلکہ میں نے اس خاتون کی حالت دیکھتے اسے خود ٹیکسی ہائر کر کے دی تھی"۔ تفصیل دیتے عمر نے مزید کہا۔
"پھر تو تمھیں یقینا یہ بھی معلوم ہوگا کہ وہ گئی کہاں ہے؟ ایڈریس تو اسنے بتایا ہی ہوگا"۔ امید کی کرن لیئے احتشام نے کہا۔
"نہیں سر میں نے ٹیکسی ڈرائیور کو کہا تھا کہ خاتون کو انکی مطلوبہ جگہ با حفاظت پہنچا دے ۔۔ کیا ہوا سر؟ کوئی مسئلہ ہے؟؟"۔
"تمھیں اس ٹیکسی ڈرائیور کا چہرہ تو یاد ہوگا نا؟؟"۔ احتشام نے پے در پے سوال کرتے کہا۔
"جی سر"۔ احتشام کو لگا کہ اسکی منزل اب چند قدم کے فاصلے پہ ہے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آوارہ خانماں کی مانند عمر کی ہمراہی میں احتشام نے تین دن یونہی حیدر آباد کے کوچوں،، سڑکوں اور چوکوں میں گزار دیئے تھے۔۔۔ امید کے دھاگے پہ یاس کی گرہ لگ گئی تھی۔
ناامید ہو کر وہ فٹ پاتھ کے کنارے بیٹھ گیا تھا ۔۔ گرمی کے باعث اسکی قمیض اسکے بدن سے چمٹی تھی ۔۔۔ آنکھوں سے بہتے آنسو پسینے میں جذب ہو رہے تھے ۔۔۔ ناک کی سیدھ پہ سڑک کے دوسرے کنارے عمر تھا جس نے ابھی تک ہار تسلیم نہیں کی تھی۔
"صاحب آپ نے کہیں جانا ہے؟؟"۔ چند منٹوں میں ایک ٹیکسی ڈرائیور احتشام کے قریب آ کر پوچھنے لگا اسکے برعکس احتشام ہر چیز سے بے نیاز سر جھکائے بیٹھا تھا ۔۔ جواب موصول نا ہونے پہ وہ ٹیکسی ڈرائیور احتشام سے دور قدم اٹھانے لگا تھا۔
اسی اثنا میں عمر کی نظر اس ٹیکسی ڈرائیور پہ جا رکی جس سے اسنے بے اختیار چلانا شروع کیا۔
"سر یہی وہ ٹیکسی ڈرائیور تھا جس کے ساتھ خاتون گئی تھی"۔ دوسرے کنارے موجود ہونے کی وجہ سے ہوا کی سرسراہٹ کے باعث عمر کی آواز مدھم تھی۔
عمر کی آواز پہ احتشام نے جھٹ سے سر اٹھایا۔
"سر وہ ٹیکسی ڈرائیور"۔ ہاتھ کے اشارے سے عمر نے اسے آگاہ کیا جس پہ احتشام دیوانہ وار ٹیکسی ڈرائیور کے تعاقب میں دوڑا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اورفنیج کے سامنے چھوٹے باغیچے میں پھولوں کے پاس کھڑی وہ انکی چارسو پھیلتی خوشبو اور رنگینی سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
جونہی بلیک چمچماتی سرکاری پراڈو اورفنیج کے باہر آ رکی گارڈ جو کہ پچھلی گاڑی میں بیٹھے تھے ،، فورا سے اس طرف آئے اور احتراما دروازہ کھولے سائیڈ پہ کھڑے ہوئے۔
احتشام کی تگ و دو بالآخر رنگ لے آئی تھی منزل کی جانب جانے والے تمام راستے اسکی مٹھی میں مقید تھے۔
بلیک پینٹ کوٹ پہ سفید شرٹ اسے بہت جچ رہی تھی ۔۔۔ اسکا رعب و دبدبہ ہر خاص و عام پہ یونہی برقرار تھا ۔۔۔ پیروں میں چمکتے کالے جوتے پہنے اسنے زمین پہ قدم رکھتے کوٹ ترتیب سے جھاڑا۔
بلیک سن گلاسز کے پیچھے سے اسکی سیاہ آنکھیں عین سامنے باغیچے میں کھڑی نین تارا کو تاکنے لگیں ۔۔۔ قدموں کے ساتھ دل کی دھڑکنیں بھی رک سی گئی تھیں۔
نین تارا اور اپنے درمیان فاصلہ کم کرتا احتشام اپنے قدم ناک کی سیدھ پہ رکھتا نین تارا کی پشت پہ جا کھڑا ہوا ۔۔۔ بے رنگ ہوا کا جھونکا نین تارا کے بالوں کو لہرا گیا اسی دورانیے میں نین تارا ایڑیوں کے بل مڑی جہاں احتشام کا وجود دیکھتے نین تارا کے لب زمانے کے ستم بھلاتے ہنس دیئے ۔۔۔۔ ایک دلفریب چمک نین تارا کی آنکھوں میں آ ٹھہری مگر دماغ پہ ہوئے ناگہانی وار نے نین تارا کو حقیقت سے روشناس کرایا جس پہ اسکے لب مسکرانا بھول گئے اور آنکھوں میں چمک کی جگہ خالی پن آ سمایا۔
"میں تم سے معافی نہیں مانگوں گا کیونکہ میں نے غلطی نہیں گناہ کیا ہے اور معافی کا حقدار صرف اور صرف کم عقل ہوتا ہے گناہ گار نہیں ۔۔۔۔ مجھے سزا چاہیئے میری ذات اب مزید تمھاری جدائی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی"۔ احتشام گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھ کر چہرہ اٹھائے نین تارا سے درخواست کرنے لگا۔
"مجھے اس اذیت سے ہمیشہ کیلیئے آزاد کر دو نین تارا میں تم سے التجا کرتا ہوں ۔۔۔ میری سانسیں میرے لیئے وبال بن گئی ہیں یہ دنیا میرے لیئے عذاب جہنم سے بھی بدتر ہے ۔۔ پلیز مجھے اس قید سے رہائی دے دو"۔ ہاتھ میں پکڑے ریوالور پہ نین تارا کا ہاتھ رکھتے احتشام نے اپنی کنپٹی پہ رکھا جس پہ آسمان نین تارا کے سر پہ آ گرا۔
"احتشام ایسا مت کریں"۔
"نہیں نین تارا مجھے مار دو اس طرح ہم دونوں کی اذیت کم ہو جائے گی ۔۔۔ چلاو گولی"۔ احتشام نے اپنی آنکھیں موند لیں جس سے مسلسل آنسو جاری تھے۔
"احتشام میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔۔ مت کریں ایسا"۔ نین تارا تلملائی۔
"نین تارا چلاو گولی"۔
"احتشام میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔۔۔ احتشام"۔ ریوالور زمین پہ پھینکتے نین تارا نے احتشام کے بائیں رخسار پہ زناٹے دار تھپڑ جڑا۔
"سمجھ کے کیا رکھا ہے آپ نے مجھے؟؟ میں کوئی کھلونا نہیں جسے جب چاہا چابی لگا کے چھوڑ دیا ۔۔۔ میں بھی آپ ہی کی طرح ایک عام انسان ہوں مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے میرا دل بھی خون کے آنسو روتا ہے ۔۔۔۔ میں نے ہمیشہ تائی جان کی زیادتیاں اور ظلم اس وجہ سے برداشت کیئے کہ کہیں آپ ماں بیٹے میں میری وجہ سے اختلاف پیدا نا ہو ۔۔۔ کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا آپ سے ۔۔۔ آپ نے جس حال میں رکھا میں خوش رہی کہ آپ کا ساتھ ہی میرے لیئے کل کائنات تھا ۔۔۔ جب تک نین تارا اس گھر میں رہی اسکا دل آپ ہی کے نام کی تسبیح کرتا رہا ۔۔۔ جس انسان کو میں نے دل دیا اسی نے بد دل ہو کے مجھے اس گھر سے نکال دیا ۔۔۔ جسے میں نے اپنی زندگی سونپی اسی نے مجھے اپنی زندگی سے باہر کیا صرف اور صرف ایک غلط فہمی کی بنا پہ ۔۔۔۔ میری معصومیت اور صداقت آج تک میرے گلے کا طوق بنی ہے احتشام"۔ نین تارا نے برسوں سے دل میں قید غبار نکالنا شروع کیا جبکہ ہمت کرتے احتشام نین تارا کے مد مقابل کھڑا ہوا۔
"کیا کہا تھا آپ نے کہ آپ مجھ سے محبت نہیں عشق کرتے ہیں ۔۔۔۔ عشق دین کا پہلو ہوتا ہے جس میں کامل یقین اولین شرط ہے اگر ہم شرط کو فوقیت نا دیں تو وہ مکرو کہلاتا ہے ۔۔۔ مکرو عشق جو آپ نے مجھ سے کیا جس میں یقین کا نشان تو درکنار گمان تک نا تھا"۔ نین تارا کے جواب میں احتشام کی آنکھوں سے مستقل آبشاریں پھوٹ رہیں تھیں۔
"جب لڑکی کے کردار پہ انگلیاں اٹھتی ہیں تو اس پہ کیا گیا اعتماد دھندلا جاتا ہے اس وقت نے میرے آنسو تو پونچھ لیئے مگر میرے زخموں کی بھرپائی نا کر سکا ۔۔۔ دنیاوی رشتوں کو خاطر میں لاتے انسان کمپرومائز تو کر لیتا ہے مگر دل سے اترے ہوئے لوگوں کو کبھی سر آنکھوں پہ نہیں بٹھاتا"۔ نین تارا کے الفاظ احتشام کے دل میں تیر کی مانند پیوست ہوئے۔
"ماما"۔ کچھ پل کی خاموشی کے بعد ننھی آواز یکجا دونوں کی حس سامعہ سے ٹکرائی۔۔۔ تب دونوں نے ایک ساتھ آواز کی سمت گردن گھمائی جہاں ننھی مشعل اپنے نازک قدم نین تارا کی جانب اٹھا رہی تھی۔
"میں نے سب تباہ کر دیا ۔۔۔۔ مجھ پہ ڈھایا گیا ستم وقت کا نہیں ۔۔۔ پچھتاوا تو اس بات کا ہے کہ اپنے چمن کو خود آگ لگا دی ۔۔۔ حسین لمحات جن کے لیئے میں پل پل ترسا ہوں مجھ سے چھن گئے ۔۔۔ سب برباد ہو گیا ۔۔۔۔ میرے ارمان،، خواب ،، خوشیاں سب راکھ کا ڈھیر بن گئیں"۔ احتشام نے الٹے قدم لینا شروع کیئے جوں جوں اسکے قدم نین تارا سے دور ہو رہے تھے اسکی سانسیں اسکے بدن کو چھوڑنے لگیں تھیں ۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے احتشام کا وجود زمین بوس ہو گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گزشتہ سالوں سے دل میں بند غبار نکالتے وقت نے نین تارا کو ایک اور کڑی آزمائش میں ڈال دیا تھا ۔۔۔ وہ مستقل آنسوؤں کے کڑوے گھونٹ بھر رہی تھی۔
احتشام آئی سی یو میں تھا اور نین تارا آئی سی یو کے دروازے پہ نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
"ڈاکٹر کیا ہوا ہے؟؟"۔ آئی سی یو کا دروازہ کھلتے ڈاکٹر باہر آئی تب نین تارا اپنی نشست سے اٹھی۔
"نروس بریک ڈاون ۔۔۔ مگر گھبرانے کی بات نہیں ہے اللہ کا شکر ہے پیشنٹ کی حالت سیریس نہیں باقی ابھی پیشنٹ بے ہوش ہے ہم انہیں پرائیویٹ روم میں شفٹ کر رہے ہیں آپ بس دعا کریں"۔
ذہنی اذیت سے دوچار ہوتی نین تارا سیٹ پہ بیٹھ گئی تھی جس کے برابر میں وہ معصوم فرشتہ بیٹھا اپنی ماں کو دیکھ کے بے حال تھا۔
"ماما یہ کون ہیں؟؟"۔
"میری جان یہ بابا ہیں آپکے ۔۔۔ آپ دعا کرو بابا جلدی ٹھیک ہو جائیں"۔ مشعل کو سینے سے لگاتے وہ رو دی۔
احتشام کو پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا مگر اسے ابھی بھی ہوش نہیں آیا تھا۔
روتے روتے کب اسکی آنکھ لگ گئی وہ اس بات سے یکسر بے خبر تھی۔۔۔ چار گھنٹوں کے نقصان پہ انصاری فیملی بھی ہوسپٹل پہنچ گئی تھی نین تارا پہ نظر پڑتے وہ سب تیز رفتار نین تارا کے قریب آئے۔
"نین تارا"۔ ممتاز، روہینہ اور قدسیہ واجد کے متعاقب تھے۔
"تایا ابو"۔ واجد کی آواز پہ وہ فورا سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
نین تارا نے سب کو صورت حال سے آگاہ کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
نازک فام فرشتہ اپنے ننھے قدم اٹھاتا احتشام کے بیڈ کے پاس آ کھڑا ہوا۔
احتشام کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے وہ مسکرا دی ۔۔۔ اسی اثنا میں اسکی نظر تھوڑے فاصلے پہ رکھے سٹول پہ گئی جسے گھسیٹ کے اسنے بیڈ کے پاس کیا بمشکل اس پہ چڑھتے پیروں کو دونوں جانب کیئے وہ احتشام کے سینے پہ بیٹھ کر اسے بغور دیکھنے لگی۔
احتشام کے سینے پہ بیٹھے اسنے زور دار قہقہ لگایا جیسے کوئی کوہ پیما پہاڑ سر کرکے خوش ہوتا ہے۔
"بابا"۔ احتشام کے رخسار پہ تھپکی دیتے اسنے ہولے سے کہا پھر اپنی نازک انگلیاں احتشام کے چہرے پہ پھیرنا شروع کیں ۔۔۔ جوں جوں اسنے احتشام کے چہرے کے اعضاء چھونا شروع کیئے اسکا دل تسکین محسوس کرنے لگا تھا ۔۔۔ چند ہی منٹوں میں اسے نیند کا ایک زوردار جھونکا آیا اور وہ اسکے سینے پہ سر رکھے سو گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"نین تارا بیٹا تم اکیلی ہو؟"۔ واجد نے اسے مخاطب کرتے کہا۔
"نہیں تایا ابو وہ مشعل ۔۔۔ ارے مشی کہاں چلی گئی"۔ خیال آتے نین تارا گھبرا گئی۔
"مشعل کون؟؟"۔ ممتاز نے مخاطب کرتے پوچھا۔
"میری اور احتشام کی بیٹی تائی جان"۔ بولتے ہی اسنے بائیں جانب روم کا دروازہ کھولا جہاں احتشام کا وجود تھا باقی سب بھی نین تارا کی پیروی کرنے لگے۔۔۔ روم کے اندر کا منظر دیکھتے نین تارا کے خشک آنسو دوبارہ سے جان پکڑ گئے۔۔۔ احتشام نے اپنی آنکھیں مکمل کھولیں تھیں اور اپنا دائیاں بازو مشعل کے گرد حائل کیا تھا جو اسکے سینے پہ جہان فانی سے بے نیاز خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔۔۔ نین تارا نے قدم اٹھاتے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے جسے احتشام نے نفی کے اشارے سے روک دیا۔
نین تارا کا دل اپنی بیٹی کو پرسکون دیکھ ہر رنج و غم سے بری ہوا
اس روم میں موجود ہر آنکھ اشک بار تھی اور دل کہیں نا کہیں مطمئن
"یادوں کے دریچوں کو بند ہی رہنے دو
وا ہو گیا گر تو زخم ہرے ہو جائیں گے
بڑی مشکل سے تھپک کر سلا دیا ہے انہیں
گر جاگ اٹھے تو پھر سے مجھے تڑپائیں گے
جذبات کے طوفان کو مشکل سے روند ڈالا ہے
ذرا سی آہٹ سے پھر سے مچل جائیں گے
کرید نا ان کو میری جان بار بار
یہ نا سمجھنا کہ ہم پھر سے سنبھل جائیں گے
اب وہ دم خم وہ طاقت نہیں رہی
تیری اک ٹھوکر سے جان سے گزر جائیں گے"
ختم شد