وہ آج ستارہ اور کومل کے ساتھ شادی کی شاپنگ کرنے مال آئی تھی۔
یونیورسٹی والے منظر کے بعد وہ آج پہلی بار رش میں نکلی تھی لیکن آج وہ گھبرائی نہیں تھی نہ خوف زدہ ہوئی تھی۔ وہ ابھی مال کے گیٹ پر ہی کھڑی تھی جب اس نے پیچھے اس کی آواز سنی۔
" اندر چلیں " زوہیب کار پارک کر کے آیا اور اس کے ساتھ کھڑے ہوکر کہا۔
مسکان نے اثابت میں سر ہلایا اور اس کے ساتھ چلتی اندر آگئی۔
شام تک وہ سب الگ الگ دکان میں خریداری کرتے رہے۔
مسکان ہر وقت زوہیب کے حصار میں رہی اگر کسی جگہ خود پر لوگوں کی نظریں محسوس کر کے خوفزدو ہو بھی جاتی تو وہ رخ زوہیب کی طرف موڑ لیتی۔ اس کا ڈپریشن اب نا ہونے کے برابر تھا۔ زوہیب نے اس سے کہی اپنی بات پوری کر لی تھی اس نے واقعی مسکان کو ہنستا مسکراتا بنا دیا تھا ہاں البتہ صحت کے لحاظ سے ابھی بھی کمزور تھی۔
زہرا آنٹی کی فوتگی کو ابھی کم ہی دن ہوئے تھے اس لیے ان کا نکاح سادگی سے کرنا طے پایا تھا اور مسکان کو اس بات کی اور بھی خوشی تھی وہ خود زیادہ دھوم دھام اور رش کش نہیں چاہتی تھی۔
************************
آج اس نے فجر کی نماز میں آنے والے زندگی کے لئے دعا کر کے دن کا آغاز کیا۔
"میرے اللہ۔۔۔۔۔ یہ دن ہر لڑکی کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جسے آج تک آپ نے میرا ساتھ دیا ہے۔۔۔۔۔۔ ہر مشکل میں حوصلہ دیا ہے۔۔۔۔ آگے بھی دیتے رہنا۔۔۔۔۔ آج میرے نکاح کے بعد زوہیب کی اور اس کی فیملی کی خوشیاں بھی مجھ سے جڑ جائیں گی۔۔۔۔۔ میری آپ سے دعا ہے کے میں ان کے خواہشوں پر پورا اتروں۔۔۔۔۔ان کو خوش رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔ "
عبادت پوری کر کے وہ لاؤنج میں آئی چاروں طرف نظریں دوڑاتی اپنے بچپن سے لے کر اب تک کے اچھے برے سب واقعات کو یاد کرتی رہی کبھی ہنستی کبھی اداس ہوجاتی۔
زندگی اسی کا تو نام ہے یہ دنیا تو امتحان کے لیے ہیں اصل دنیا تو وہ ہے جہاں انسان نے آخرت کے بعد ہمیشہ کے لئے رہنا ہے اور اسے پانے کے لیے صبر اور توکل سے سارے امتحان پاس کرنے ہوتے ہیں ۔
***********************
زوہیب کی اتنی دنوں بعد آج ڈیوڈ اور کیرل سے بات ہورہی تھی۔ وہ لوگ فرانس سے سیر و تفریح کر کے واپس لندن آگئے تھے اور اگلے سمسٹر کی تیاری کر رہے تھے۔
زوہیب سے اس کا اچانک فرانس کا پروگرام منسوخ کر کے پاکستان جانے کی وجہ پوچھی تو مما کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ انہوں نے تعزیت کرنے کے بعد واپسی آنے کا پوچھا۔
زوہیب:" ابھی نہیں فلحال ایک ضروری کام کرنا باقی ہے" اس نے بال درست کرتے ہوئے مصروف انداز میں جواب دیا۔
ڈیوڈ:" کیسا ضروری کام" اس نے کیرل اور جنیفر کے ساتھ کافی پیتے ہوئے سپیکر ان کئے ہوئے پوچھا۔
زوہیب:" ایک سرپرائز ہے۔۔۔ وہی آکر بتاوں گا۔" یہ کہہ کر اس نے ڈیوڈ اور باقی دوستوں سے بائے کہتے کال کاٹا اور ڈیڈ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
ڈیڈ بھی تقریباً تیار ہوگئے تھے۔ وہ ان کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑا ہوگیا۔
زوہیب:" کیسا لگ رہا ہوں ڈیڈ" اس نے اسٹائل سے کھڑے ہوکر پوچھا۔
زوہیب بلیک کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا۔ بال پیچے جمائے شیو نفاست سے تراشی ہوئی اور آنکھوں پر عینک لگائے اپنی شادی کے لیے تیار تھا۔
ڈیڈ:" ماشااللہ۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ کی طرح ہینڈسم۔" ڈیڈ نے اس کے کندھوں کو تھام کر تعریف کی اور دعا دی۔ زوہیب شکریہ ادا کرتا ان کے ساتھ لاؤنج میں آیا۔ مریم باجی بھی اپنے چھوٹے بھائی کی شادی میں شریک ہونے پہنچ گئی تھی۔
سب مل کر ہال پہنچے جہاں پہلے ستارہ کی شادی کی تقریب اپنے زور و شور سے رواں دواں تھی۔
مسکان نے سفید رنگ کے ہلکے زری کے کام والا قمیض شلوار زیب تن کیا ہوا تھا اور دوپٹہ سر پر لیا ہوا ستارہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ستارہ کی منگنی اس نے مس کر دی تھی پر اب شادی میں وہ اس کے ساتھ رہے گی اور بعد میں اپنے نکاح کے لئے تیار ہوگی۔
زوہیب تقریب کے دوران مسکان سے اور سب گھر والوں سے اچھے سے ملا۔ مسکان کو دیکھ کر وہ گہرے سوچ میں پڑھ گیا۔
وقت انسان کو بہت بدل دیتا ہے۔ آج مسکان اسی طرح سفید ڈریس میں اس کے سامنے تھی جیسے کومل کی منگنی کے دن پہلی مرتبہ زوہیب نے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔ لیکن بہت کچھ تھا جو بدل گیا تھا۔۔۔ ہنسی کی جگہ خاموشی نے لے لی تھی۔۔۔۔ کھلکھلاہٹ اور چنچل پن کی جگہ سنجیدگی نے۔۔۔۔
کبھی کبھی وقت سے اچھا کوئی نہیں ہوتا اپنے ساتھ دل کے زخم بھر دیتا ہے غم بھولا دیتا ہے لیکن کبھی پھر وقت سے برا کوئی نہیں ہوتا جو ایک دفعہ گزر جائے تو کبھی لوٹ کر نہیں آتا پھر انسان کے ہاتھ پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔
*****************
خرم اپنے بیوی بچوں سمیت شادی میں شرکت کے لئے موجود تھے۔
صبح جب وہ مسکان سے ملے تو مایوس ہو گئے تھے۔
خرم:" کیسی ہو مسکان" انہوں نے دل گرفتگی سے پوچھا۔
مسکان:"ٹھیک ہوں بھائی آپ کیسے ہے " مسکان نے تسلی بخش جواب دیا۔
خرم:" میں تو ٹھیک ہوں پر۔۔۔۔۔۔ بہت شرمندہ ہوں۔۔۔۔ کاش اس دن میں تمہیں اکیلے جانے نہ دیتا۔۔۔۔" انہوں نے افسوس سے سر جھٹکا۔
مسکان:" نہیں ایسے مت کہے۔۔۔۔ جو قسمت میں ہو وہی ہو کر رہتا ہے۔۔۔۔۔ میں اب move on کر چکی ہوں آپ بھی بھول جائے۔" اس نے مسکرا کر کہا۔
خرم:" میں تمہاری شادی کا سن کر بہت خوش ہوا۔ زوہیب بہت اچھا لڑکا ہے۔۔۔ تمہیں بہت خوش رکھیں گا۔
مسکان شکریہ ادا کرتی وہاں سے چلی گئی اور خرم اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔
*********************
ستارہ کی شادی اختتام کو پہنچی سب مہمان اپنے گھروں کو رخصت ہوگئے۔ آخر میں صرف خاندان کے افراد رہ گئے تو مسکان اور زوہیب کے نکاح کی تیاری شروع ہوئی۔
جتنا سادہ نکاح تھا مسکان بھی اتنی ہی سادی سی تیار ہوئی۔
اس نے اپنے اور زوہیب کے پسند کے رنگوں، سرخ اور گلابی کا منتشر کیا ہوا لہنگا پہنا اور باریک لڑی کے شکل کے موتیوں والا زیور۔
خود ہی ہلکا سا میک اپ کیا اور کومل اسے ساتھ لیئے سٹیج پر آگئی۔
زوہیب اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا سادگی میں بھی اس کے چہرے کے نور نے پورے منظر کو منور کر رکھا تھا۔
زوہیب کے ساتھ، اس کی دلہن بنے بیٹھتے ہوئے مسکان کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
قاری صاحب آئے اور نکاح کے کلمات بولنا شروع کئے۔
شروعات زوہیب سے کی گئی۔
زوہیب ولد سہیل احمد۔۔۔۔ کیا آپ کو مسکان بنت حارث رشید 5 لاکھ حق مہر کے عوض اپنے نکاح میں قبول ہے۔
قبول ہے
قبول ہے
قبول ہے
سب گھر والوں نے خوش سے ایک دوسرے کو گلے لگایا مبارکباد کا تبادلہ کیا۔ نائلہ بیگم نے جھک کر اشک بار آنکھوں سے مسکان کی پیشانی کو چوما اور مبارکباد دی۔
زوہیب نے نکاح پیپر پر دستخط کئے۔
وہی کلمات اب مسکان سے کہے گئے۔
مسکان بنت حارث رشید۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کو زوہیب ولد سہیل احمد 5 لاکھ حق مہر کے عوض اپنے نکاح میں قبول ہے۔
مسکان کی دھڑکن تیز ہوگئی اس نے بولنے کے لئے لب کھولے لیکن حلق سے آواز نہ نکل سکی۔ نظریں نیچی کیے وہ اپنے اضطراب کو قابو رکھنے کی کوشش کرتی رہی۔
قاری صاحب نے اسے خاموش دیکھ کر پھر سے کلمات دوہرائے۔
مسکان نے اپنے ساتھ بیٹھے زوہیب کو دیکھا اس نے پلکیں جھپکا کر تسلی دی تو اس نے شرما کر ایک ہی سانس میں رضامندی دی۔
قبول ہے
قبول ہے
قبول ہے
فرش سے لے کر عرش تک سب جاندار مخلوقات ان کی شادی کے گواہ بنے۔ مسکان نے بھی نکاح پیپر پر دستخط کئے اور سب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔
نکاح ہوگیا تو سب خوشی سے چہک اٹھے۔
ستارہ نے دلہن کے جوڑے میں بھی سالی ہونے کا پورا فرض نبھایا۔ دودھ پلائی کی رسم کی اور زوہیب کا بٹوہ خالی کر کے رکھ دیا۔
رخصتی کے وقت سب نے اشک بار آنکھوں سے اسے رخصت کیا۔ صرف ستارہ جاتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسے زوہیب کو تڑپانے کی فوراً سے قریب نا چھوڑنے کی اور رومانس کا الگ الگ طریقہ تجویز کرتی رہی اور مسکان شرماتے ہوئے اسے چپ کروانے لگی رہی۔
ستارہ:" جیسے بتا رہی ہوں ویسی کرنا مزہ آئے گا میں بھی ایسی کروں گی" اس نے آنکھ مار کر اشارہ کیا۔
مسکان سرخ پڑھتے چہرے کے ساتھ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ ہونے کا اشارہ کرتی رہی۔
اسی نوک جوک میں دونوں نے گلے لگ کر ایک دوسرے سے رخصت لیا اور بھیگی آنکھوں سے اپنی اپنی کار کے جانب چلی گئی۔
*******************
آج سے پہلے وہ اس گھر میں مہمان بن کر آتی تھی پر آج وہ اس گھر میں نئی بہو بن کر آئی تھی۔ اس کی خوشی آسمان کو چھو رہی تھی۔ کومل اسے سیدھے زوہیب کے کمرے میں لے گئی جیسے بہت نفیس سے تازہ پھولوں کے پتیوں سے سجایا گیا تھا۔ تازہ گلاب کی خوشبو اسے اور محظوظ کر رہی تھی۔
زوہیب لاؤنج میں بزرگوں کے بیچ بیٹھا رہا اور بار بار اپنے کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر آہ بھرتے رہ جاتا۔
اسے دیکھ کر عثمان اور زاہد( مریم کے شوہر ) آپس میں شریر نظروں کا تبادلہ کرتے اور ہنسنے لگ جاتے۔ ان کو خود پر ہنستے دیکھ زوہیب رخ موڑ لیتا۔
ایک آدھ گھنٹہ یہی صورتحال رہی پھر جاکر سب اپنے کمروں میں چلے گئے اور زوہیب کو بھی اپنی کمرے میں آنے کا موقع ملا۔
جس وقت وہ کمرے میں داخل ہوا مسکان سادی شلوار قمیض میں جائے نماز پر کھڑی نماز پڑھتی نظر آئی۔
زوہیب اسے اس فعلیت میں دیکھ کر مسرور ہوا۔ کچھ دیر وہی کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر آگے بڑھ گیا اور اس کے سایئڈ سے گزرتا ہوا واشروم میں چلا گیا۔ ۔
وہ شب خوابی کے کپڑے پہن کر باہر آیا تو مسکان نماز پڑھ چکی تھی اور جائے نماز طے کر کے رکھ رہی تھی۔ وہ اس کے پاس آیا اور پیچے سے اس کے کمر کے گرد بازو مائل کرتے ہوئے اپنی بانہوں میں لے لیا۔
مسکان زوہیب کو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔ اس کے اچانک پکڑ لینے سے وہ ٹھٹک گئی اور تیز ہوتی دھڑکن سے زوہیب کے بازووں پر ہاتھ رکھ لئے۔ دل میں اس نے ڈاکٹر کا کہا جملہ دوہرایا۔
( وہ میرا محرم ہے میرا شوہر ہے)
اور اس کا خوف کم ہوگیا۔
زوہیب نے اس کا رخ اپنی طرف موڑا۔
" آج finally ہماری شادی ہوگئی" اس نے مسکرا کر کہا۔
مسکان نے بھی مسکرا کر اثابت میں سر ہلایا۔
وہ اسے لیئے بیڈ پر بیٹھا اور ٹراؤزر کے جیب سے ایک روبی کی انگوٹھی نکال کر مسکان کو پہنائی۔
" تمہارا گفٹ"
مسکان کی آنکھیں چمک اٹھی۔
" بہت پیاری ہے "
زوہیب نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما۔
"مسکان تم خوش تو ہو" اس نے اپنی گہری آنکھیں اس پر مرکوز کر کے پوچھا
مسکان:" میں اتنی خوش ہوں زوہیب کہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔۔۔۔ آپ خوش ہے نا" مسکان نے اندیشہ مندی سے کہا۔
زوہیب:" بہت " اس نے قریب ہو کر نرمی سے مسکان کا گال چومتے ہوئے کہا ۔
اگلی صبح اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنا ہمسفر اپنے پاس پایا۔ وہ ہمسفر جس کی مسکان نے خواہش کی تھی۔ جس کے ساتھ کے لئے اس نے دن رات دعائیں کی تھی۔ اس نے زوہیب کے بالوں میں شفقت سے ہاتھ پھیرا اور تسکین سے مسکراتے ہوئے اٹھی اور فریش ہونے چلی گئی۔
وہ ایک مرتبہ پھر اپنی زندگی سے مطمئن محسوس کرنے لگی۔ لیکن زندگی کے اصول اب بھی سمجھنا باقی تھے۔ قدرت کبھی ہمیں ہمارے من پسند خواہش سے دور کر کے آزماتی ہے تو کبھی قریب کر کے۔
مسکان نے دور ہونے کی آزمائش تو کاٹ لی تھی پر ابھی قریب ہونے کی آزمائش باقی تھی۔
***********************
# 2 مہینے بعد #
شادی کے پہلے دو مہینے خوشحال اور مستحکم گزریں۔ اس نے کومل کے ساتھ گھر کی زمہ داری سنبھال لی تھی۔ سہیل صاحب بھی اس سے خوش تھے اور باقی گھر والے بھی۔
زوہیب چونکہ فارغ تھا تو ابتدائی سیکھ کے لئے پچھلے 1 ماہ سے ڈیڈ کے ساتھ آفس جا رہا تھا۔
اس صبح وہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑی گیلے بالوں کو برش کر رہی تھی جب زوہیب نے پیچے سے اس کو کمر سے پکڑا۔ مسکان کے چلتے ہاتھ رک گئے۔ زوہیب آفس جانے کے لئے تیار تھا اور اتنی صبح صبح اس کی یہ حرکت دیکھ کر مسکان حیران ہوئی۔
:" کیا ہوا زوہیب" اس نے آئینہ میں زوہیب کو دیکھ کر مخاطب کیا۔
زوہیب نے اس کو پلٹا کر رخ اپنے جانب کیا۔
" مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ادھر آو۔" اس نے دھیمے لہجے میں کہا اور اسے بیڈ پر بیٹھا دیا۔ خود گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھا اور مسکان کے ہاتھ مظبوطی سے اپنے ہاتھوں میں لیئے رکھا۔
"مسکان تم چاہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تمہارے کیس کو ری اوپن (re-open) کروا سکتے ہے۔۔۔۔۔۔ وہ لندن والی شیزا بھابھی ہے نا ان کے کزن ہے یہاں پولیس میں۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ان سے بات کی ہے وہ ہماری مدد کریں گے۔۔۔۔"
مسکان کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ اس کے چہرے پر مایوسی در آئی۔
" اب کیا فائدہ زوہیب۔۔۔۔۔۔۔ اب تو ایک سال ہوگیا ہے۔۔۔۔ اب تو مجھے ان کی شکلیں یاد بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی میں ان سب سے آگے آگئی ہوں۔۔۔۔۔ واپس پیچے موڑ کر خود کو پھر سے ذہنی اذیت نہیں دینا چاہتی۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ ہی اس گھر کے سکھ اور امن کو خراب کرنا چاہتی ہوں" مسکان نے دل گرفتگی سے کہا۔
" پر اگر آپ اپنے تسکین کے لئے کیس کروانا چاہتے ہے تو۔۔۔۔۔۔۔ تو ٹھیک ہے۔۔۔۔"
زوہیب:" نہیں۔۔۔۔ its ok " اس نے کھڑے ہو کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا اور خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
مسکان نے آنکھ کے گوشہ کو صاف کیا اور آنکھیں جھپکا کر لمبی سانس لی۔ بہت سارے آنسو اور زوہیب کے روئیے کا کڑوا گھونٹ اپنے اندر اتارا۔
مرد کتنا بھی مظبوط بن جائے لیکن یہ کھٹک دل میں ضرور ہوتی ہے۔ آج زوہیب کے دل کا خلل اسے اس کے غیر مبہم الفاظ میں نمایاں واضح ہوگیا تھا۔
وہ آفس کے لئے جا رہا تھا کہ عثمان نے اسے مخاطب کیا
"زوہیب تمہاری یونیورسٹی سے فون آیا تھا۔۔۔۔ تمہارا سمسٹر شروع ہوئے 3 ہفتوں سے زیادہ ہوگیا ہے۔۔۔۔ تم واپس کب جارے ہو۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ تمہارا نام کاٹ رہے ہے۔" اس نے فکرمندی سے پوچھا
زوہیب:" بھائی میں۔۔۔۔مسکان کو ساتھ لے کر جاو گا۔۔۔۔ اس کے ویزا کے لئے درخواست دے دی ہے جیسی منظور ہوتا ہے ہم چلے جائے گے۔" اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
عثمان:" لیکن وہ تو تب اگر ڈیڈ راضی نہ ہوتے پر اب تو سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے۔۔۔۔۔ اور یہاں مسکان کے ساتھ ہم سب ہے نا۔" وہ اب بھی مطمئن نہیں ہوسکے تھے۔
زوہیب:"میں پھر بھی اسے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ تو آپ سب ہونگے لیکن میرے ساتھ وہاں کوئی نہیں ہے کب تک فاروق کے گھر بیٹھا رہوں گا" اس نے سنجیدگی سے کہا۔
عثمان:" لیکن ایسے تو تمہارا سمسٹر ضائع ہوجائے گا"
زوہیب:" کسی کی زندگی ضائع ہونے سے بہتر ہے سمسٹر ضائع ہو۔۔۔۔۔۔ پڑھائی تو بعد میں دوہرا سکتے ہیں لیکن زندگی ایک دفعہ ہاتھ سے چلی گئی تو پھر کبھی نہیں آتی۔" اس نے عثمان کو تسلی دیتے ہوئے کہا اور آفس کے لئے نکل گیا۔ عثمان وہی کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
**********************
زوہیب نے شیزا کے کزن ASP ارسلان سے مسکان کے کیس کے بارے میں بات کی تھی۔
اپنی ہاتھ لگے سارے معلومات بھی فراہم کئے تھے اور انہوں نے کچھ دن میں انویسٹیگیشن کر کے ان لوگوں کا پتہ کروانے کا کہا تھا۔
ایک ہفتہ پہلے اے ایس پی ارسلان نے کال کر کے زوہیب کو اپنے دفتر بلایا۔
زوہیب سے ملنے پر انہوں نے ساری تفصیل بتائی۔
" عموماً ایسے لوگ اکیلے نہیں ہوتے ان کے پیچے ضرور کوئی بڑی قوت موجود ہوتی ہے جو کسی بھی واردات سے انہیں آسانی سے نکال سکے ورنہ اتنی آسانی سے ایسے سفید پوش ایریا سے لڑکی اٹھانا اور پھر زیادتی کر کے جان سے مارنے کی کوشش کرنا کسی عام آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔"
زوہیب سنجیدگی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
" جیسا کہ آپ نے بتایا کہ وہ لوگ آپ کی مسزز کو مرا ہوا سمجھ کر وہاں سے بھاگ گئے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ اس لڑکی کو ہسپتال لے کر گئے ہیں تو جس ہسپتال میں اس رات آپ کی مسزز داخل تھی میں نے وہاں ایک سال پہلے اس رات سے لیکر اگلے ایک ہفتہ تک کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی کچھ انجان لوگ وہاں آتے رہے تھے اور جہاں سے مسکان کو اٹھایا گیا تھا وہاں بھی اس کی تلاش میں جاتے رہے تھے۔"
زوہیب:"لیکن ان لوگوں کو پتہ کیسے چل جاتا ہے۔ " اس نے غور سے ان کی تفصیل سنتے ہوئے پوچھا۔
افسر:" جو ان کے حرکات و سکنات میں نے جانچے ہے یہ کوئی عام مجرم نہیں تھے انہوں نے پہلے بھی ایسی وارداتیں کی ہوئی تھی اسی لیے اتنی مہارت سے اب بھی کرتے ہیں۔۔۔ جب اس رات کے حادثے کے بارے میں کوئی کیس نہیں بنا اور نیوز پر کوئی خبر نہیں آئی تو وہ لوگ مطمئن ہوگئے اور آپ کی مسزز کا پیچھا چھوڑ دیا۔"
افسر نے دیکھا زوہیب اب بھی اضطراب میں ہے تو پھر گویا ہوا۔
" لیکن زوہیب اگر ہم ابھی کوئی کیس کریں گے اور ان کے خلاف کارروائی شروع کریں گے تو پہچانے جانے کے خوف سے وہ پھر آپ کی مسزز پر حملہ کر سکتے ہیں یا آپ کو ڈرانے اور کیس کے دستبردار کرنے آپ کی فیملیز کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔۔۔ باقی جیسے آپ کو مناسب لگے۔۔۔ ہم ہر وقت آپ کے پیش خدمت ہے۔۔۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنی مسزز سے پوچھ لیں کیونکہ اس کارروائی کے چلتے سب سے زیادہ مشکل ان ہی کو ہوسکتی ہے "
زوہیب:" شکریہ سر۔۔۔۔ میں آپ کو سوچ کر بتاتا ہوں۔" اس نے افسر سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے روانہ ہوگیا۔ اگلے پورے ہفتے وہ اسی کشمکش میں رہا۔ وہ کیس کروانا چاہتا تھا لیکن اپنے فیملی کو خطرے میں بھی نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس بارے میں اس نے گھر میں کسی سے ذکر نہیں کیا تھا۔
اس دن مسکان کے انکار کے بعد اس نے افسر ارسلان کو کیس نہ کرنے کا فیصلہ بتایا۔ لیکن اب وہ کسی بھی صورت مسکان کو وہاں چھوڑ کر جانے پر تیار نہیں تھا۔ اس لئے اسے ساتھ لندن لے جانے کا فیصلہ کیا۔
*******************
# 6 مہینے بعد #
مسکان:" سگریٹ کیسے پینے لگ گئے۔"
وہ دونوں اس وقت لندن پل کے سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ موسم سرما کی شاموں میں اکثر وہ سیر کے لئے چہل قدمی کرتے ہوئے نکل پڑتے۔
آج اسے لندن آئے 3 ماہ ہوگئے تھے۔
3 ماہ پہلے جب وہ زوہیب کے ہمراہ لندن ایرپورٹ پر لینڈ ہوئی تو اسے بہت خوشگوار محسوس ہوا۔
قاروق بھائی اور شیزا بھابھی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دل فراغی سے مسکان کا استقبال کیا۔ حلانکہ زوہیب نے انہیں ایرپورٹ آنے سے منع کیا تھا لیکن ان کا کہنا تھا نئی دلہن آرہی ہے تو استقبال کرنا ضروری ہے۔
زوہیب سارا راستہ فاروق اور شیزا سے گفتگو کرتا رہا اور وہ کھڑکی سے باہر گزرتے عمارتوں کے نظارے کرتی رہی۔
وہ پہلی مرتبہ گھر سے اتنی دور آئی تھی۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دکھ اپنے رنج و غم بھی پیچے چھوڑ آئی تھی۔
اس نے سوچ لیا تھا یہاں وہ نئی پہچان بنائے گی نئے سرے سے زندگی شروع کریں گی۔
زوہیب کے ہدایات پر فاروق نے ان ہی کے اپارٹمنٹ میں ان دونوں کے لئے ایک چھوٹا فلیٹ کرائے پر کروا لیا تھا اور ان کے پہنچنے سے پہلے ساری اشیائےخوردونوش فراہم کر رکھے تھے۔
لیکن فلحال وہ فاروق کے گھر ہی آئے تھے کھانے کا اہتمام یہی کیا گیا تھا پچھلی بار کی طرح فاروق نے بچوں کو ساس کے پاس نہیں چھوڑا تھا وہ گھر پر ہی تھے اور ان کے داخل ہوتے ہی چاچی چاچی کرتے مسکان پر جھپٹ پڑھے۔
فاروق اور شیزا انہیں تمیز و تمدن کی رہنمائی کرتے رہے اور زوہیب مسکراہٹ دبائے آبرو اچکا کر مسکان کو اور تنگ کر رہا تھا۔
کھانے کے بعد وہ فاروق اور شیزا سے رخصت لیتے اپنے فلیٹ میں آگئے۔ مسکان اس 2 بیڈ روم کے چھوٹے سے گھر میں بہت مسرور ہوگئی جو آج سے اس کا اور اس کے شوہر کا گھر تھا۔
زوہیب:" کیسا لگا ہمارا چھوٹا سا آشیانہ" اس نے سامان کو اندر رکھتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔
مسکان:" بہت خوبصورت " مسکان کی زوہیب کی طرف پیٹھ تھی اس کے مخاطب کرنے پر وہ ایڑیوں کے بل گھومی اور ہاتھ ہوا میں پھلائے جھوم کر کہا۔
جب ہم اپنا سارا معاملہ اللہ کے بھروسے چھوڑ دیتے ہے تو وہ ہمیں بہترین سے نوازتا ہے۔ بیشک وہ پاک ذات ہر چیز پر قادر ہے۔ امید صرف اللہ سے ہونی چاہئے اور موجودہ نعمتوں کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ پھر جو انعام ملتا ہے وہ انسان کی سوچ سے پرے ہوتا ہے۔
شادی کے بعد سے کچھ عرصہ تک زوہیب کے مزاج میں جو تبدیلیاں آگئی تھی اسے مسکان نے اللہ کا ایک اور امتحان مان کر صبر سے برداشت کیا تھا۔
اور لندن آنے کے بعد زوہیب کی وہ غیرمعیاری مزاجی ختم ہوچکی تھی۔
لندن آنے کے چند روز بعد ہی زوہیب نے یونیورسٹی اور اپنی نوکری پر جانا شروع کر دیا ۔ وہ دن میں یونیورسٹی جاتا اور شام تک کام پر لیکن مسکان کو شیزا نے کبھی اکیلے پن کا احساس نہیں ہونے دیا وہ اپنے کام نپٹا کر مسکان کے پاس آجایا کرتی اسے اپنے ساتھ مارکیٹ لے جاتی وہاں سے گروسری شاپنگ کرواتی اور مسلسل بولتی جاتی۔
زوہیب جب تھک ہار کر گھر آتا اسے اپنی بیوی اور اس کے ہاتھ کا بنا کھانا تیار ملتا۔ وہ ساتھ مل کر کھانا کھاتے چائے پیتے فلم دیکھتے۔ زندگی حسین ہوگئی تھی اس کے لئے۔
ویک اینڈ پر وہ مسکان کو اپنے ساتھ لندن شہر گھماتا۔ ایک ویک اینڈ اس نے اپنے دوستوں کو گھر بلایا اور مسکان سے متعارف کروایا۔
زوہیب:" دوستوں ان سے ملو۔۔۔ میری وائف مسکان " مسکان نے کچھ جھجکتے ہوئے سب کو ہائے کیا۔
سب کے سب دنگ رہ گئے۔
جہاں سب بے یقینی سے مسکان سے ملیں وہی کیرل کی زوہیب کو اپنانے کی آس پھر ٹوٹ گئی۔
ڈیوڈ:" پر۔۔۔۔ تم تو ماں کے وفات پر گئے تھے نا پھر شادی۔۔۔۔۔ وہ بھی ہمیں بنا بتائے۔"اس نے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
زوہیب:" ہاں بس حالات کچھ ایسے تھے کہ شادی کرنی پڑی۔۔۔۔ اور تمہیں کہا تو تھا آکر سرپرائز دوں گا۔"اس نے میز پر ڈونگا رکھتے ہوئے کہا۔
ڈیوڈ:" تو یہ سرپرائز تھا۔۔۔" اس نے کیرل اور جنیفر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
کھانے پر فاروق اور شیزا کو بھی بلایا گیا تھا۔
زوہیب خوش دلی سے سب کو کھانا سروو کرتا رہا۔ اور سب نے مزے سے پاکستانی پکوان کھائے۔ گو کہ مسکان کوکنگ میں زیادہ اچھی نہیں تھی پھر بھی سب نے خوب تعریف کی۔ کھانے کے بعد بھی زوہیب کیرل کے ساتھ اچھے سے گھل مل کر بیٹھا باتیں کرتا رہا۔
کوئی بھی عورت چاہے کتنی بھی لبرل ہو اور کسی بھی ملک میں رہے اپنے شوہر کو کسی اور عورت کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتی۔ اس وقت مسکان کی بھی یہی کیفیت تھی اسے زوہیب کی کیرل کے ساتھ یہ بے تکلفی اچھی نہیں لگی وہ نماز پڑھنے کا کہہ کر کمرے میں آگئی اور ان کے جانے تک کمرے میں ہی رہی۔
اس کی یہ کیفیت زیادہ دن تک زوہیب سے نہیں چپ سکی تھی وہ جب بھی کیرل کا ذکر کرتا مسکان کا منہ بن جاتا اور کسی بہانے سے اس کے پاس سے اٹھ جاتی۔
ایک دن زوہیب نے اسے روک کر پوچھ بھی لیا تھا۔
مسکان:" مجھے نہیں پسند میرا شوہر میرے ہوتے ہوئے کسی اور عورت میں اتنی دلچسپی لے۔۔۔۔۔ میں اس سے جیلس نہیں ہوں نہ میرا اس سے کوئی مقابلہ ہے۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ صرف آپ کی دوست ہے پھر بھی مجھے آپ کی اس سے بے تکلفی نہیں پسند" اس نے چھنپتے ہوئے افسردگی سے سر جھکائے ہوئے کہا۔
زوہیب:" ھمممم بس اتنی سی بات۔۔۔۔ ٹھیک ہے آیندہ میں اس کے ساتھ حد میں رہوں گا۔۔۔ تمہیں میرا کوئی بھی مشغلہ پسند نہ ہو تو تم مجھ سے بول دیا کرو۔۔۔۔۔۔ جتنا میرا تم پر حق ہے اتنا ہی تمہارا مجھ پر۔۔۔۔ جیسے تم میری ہر پسند نا پسند کا خیال رکھتی ہو ویسے ہی مجھے بھی تمہاری پسند نا پسند کا خیال رکھنا چاہیئے۔" اس نے پیار سے سمجھاتے ہوئے اسے گلے لگایا ۔اس دن کے بعد زوہیب نے پھر کبھی اس کے سامنے کیرل کا ذکر نہیں کیا اور خود بھی اس سے دوری بنائے رکھی۔
************************
اس دن وہ دونوں سیر کے لئے نکلے تھے اور اس وقت کچھ دیر سستانے پل کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے جب مسکان نے اسے سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دیکھ کر سوال پوچھا۔
" سگریٹ کیسے پینے لگ گئے۔" اس نے کوٹ کے جیبوں میں ہاتھ ڈالے سامنے پانی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
زوہیب نے ایک آہ بھری اور مسکان کی طرف رخ کر کے گویا ہوا
" جب تم اچانک غائب ہوگئی تو پاگل سا ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ بھائی سے پوچھا بھابھی سے پوچھا ستارہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی پر کہیں سے تمہارا پتہ نہ چلا۔۔۔۔۔۔ رات رات بھر جاگتے رہنے سے نظر کمزور ہوگئی گلاسس لگ گئے۔۔۔۔۔ کسی سے اپنا دل کا حال شیئر بھی نہیں کر سکتا تھا اس لیے۔۔۔۔۔ اپنی تکلیف کم کرنے اس کا سہارا لینا پڑا" اس نے ہاتھ میں اٹھائے سگریٹ کی طرف اشارہ کیا۔
مسکان دم سادھے اسے دیکھنے لگی۔
" اس کے بعد چھوڑنے کی بہت کوشش کی لیکن۔۔۔۔ چھوڑ نہیں سکا۔۔۔۔ عادت لگ گئی ہے۔۔۔۔۔ ہاں البتہ پہلے سے کم کر دی ہے۔" اس نے آخری کش لے کر باقی سگریٹ بجھا دی۔
مسکان:" آپ کو پتہ ہے آج سے دو سال پہلے کومل آپی کے شادی کے دن میں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ وہ آپ کو میرا نصیب بنا دے۔۔۔۔ اور دیکھے آج آپ میرا نصیب ہے" اس نے زوہیب کے کندھے پر سر رکھ کر دور افق میں دیکھتے ہوئے کہا۔
زوہیب:"ھممم تو اللہ نے تمہاری سن لی" اس نے مسکان کی بات سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
مسکان:"اللہ سب کی سنتا ہے۔۔۔۔ آپ بھی پورے اعتماد کے ساتھ ان سے کہہ کر دیکھیئے۔۔"
"بیشک وہ سب کی سنتا ہے" زوہیب نے مسکرا کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ مسکان بھی ساتھ کھڑی ہوگئی اور دونوں اپنے گھر کے جانب گامزن ہوگئے۔
انسان کو اپنے ہر مشکل کا حل خود نکالنا ہوتا ہے لیکن جب آپ کے ہاتھ میں کچھ نہ ہو حالت ساتھ نہ دے تو اللہ سے رجوع کریں اور سب سے بہترین طریقہ ہے دعا۔ کوئی بھی وقت قبولیت کا ہوسکتا ہے۔ ہمیں ہر وقت صرف اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔ اس خالق کائنات کے لئے تو کچھ بھی نا ممکن نہیں وہ تو بس حکم دیتے ہے ہو جا اور وہ کام ہوجاتا ہے۔ (سبحان اللہ)
************************************************
ختم شد