وہ اپنے کپڑے درست کرتا ہوا بالوں کو انگلیوں سے سیٹ کرتا ہوا entrance کی طرف گامزن ہوا
"ایسی کیا بات ہوگی جو وہ اس طرح باہر بلا رہی ہے" اس نے چلتے ہوئے سوچا۔
ہال کے سرے پر پہنچ کر مسکان کو دیکھتے ہی بے اختیار وہ مسکرانے لگا لیکن جب ساتھ میں ستارہ کو بھی کھڑا پایا تو وہ سیریس انداز میں چلتا ہوا قریب گیا۔
ستارہ:" زوہیب یہ مسکان ہے میری کزن اس کا کلچ شاید آپ کی گاڑی میں گر گیا ہے" بات کا آغاز ستارہ نے کیا۔
زوہیب:"اوہ اچھا، ٹھیک ہے چل کے دیکھتے ہیں" اس نے ان کے آگے بڑھ کر گاڑی کی طرف چلنے کو کہا۔
تینوں آگے پیچھے چلتے پارکنگ کی طرف جارہے تھے۔ جب پیچھے سے ایک بچہ تیزی سے بھاگتا ہوا ان کے پاس آیا اور پھولتے سانس میں ستارہ کو مخاطب کیا
" ستارہ باجی جلدی چلے خالہ کب سے آپ کو ڈھونڈ رہی ہے کومل باجی کو سٹیج پر لے جانا ہے رسم کرنی ہے" وہ ستارہ کو ہاتھ سے پکر کر اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا۔
ستارہ:" اچھا اچھا آرہی ہوں۔ مسکان تم اپنا موبائل لے کر جلدی آنا" اس نے بچے کے ساتھ تقریبا بھاگتے ہوئے مسکان کو آواز لگائی۔
مسکان اسے روکنا چاہتی تھی پر تب تک وہ جا چکی تھی۔ اسے زوہیب کے ساتھ اکیلے جانے میں الجھن ہو رہی تھی لیکن کلچ ڈھونڈنا بھی ضروری تھا اس لیے وہ چپ چاپ اس کے ساتھ چلنے لگی۔
زوہیب شرارتی انداز میں اپنی مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کرتا ہال کے پیچھے تاریکی میں چلنے لگا۔
مسکان:" یہ آخر جا کہاں رہا ہے۔ اس طرف تو کوئی پارکنگ نہیں ہے" اس نے تعجب سے آہستہ رفتار میں چلتے ہوئے آس پاس نظر دوڑائی۔
زوہیب کو جب اپنے پیچھے مسکان کے قدموں کی چاپ دور پڑتی سنائی دی تو مڑ کر دیکھنے لگا۔
زوہیب:" آجاو۔۔۔۔۔ گاڑی میں خود دیکھ لینا" اس نے معصومانہ صورت بنائے کہا۔
مسکان:" hmmm ok" اس نے سنجیدگی سے کہا اور تیز قدموں سے زوہیب کو پار کر کے کوریڈور سے باہر نکل گئی۔ چلتے ہوئے سر جھکائے وہ مسلسل سوچ رہی تھی "اگر اس نے میرے ساتھ کوئی بدتمیزی کی تو۔۔۔۔۔۔" وہ آگے کا لائحہ عمل سوچ ہی رہی تھی کہ زوہیب نے کلک کر کے گاڑی کا لاک کھولا اور خود پیچھے ہو کے اسے ہاتھ سے گاڑی میں دیکھنے کا اشارہ کیا۔
وہ آگے آئی اور گاڑی کو دیکھ کر حیرت سے آنکھیں پھیل گئی۔ :"یہ بھی کار پارک کرنے کی جگہ ہے کوئی" اس نے منہ بھسورتے ہوئے سوچا پھر سر اندر کر کے گاڑی کا جائزہ لیا پر وہاں بھی کلچ موجود نہیں تھا۔
مسکان:" اففف یہاں بھی نہیں۔ اب اور کہاں ڈھونڈوں" وہ اب پوری طرح روہانسی ہو گئی تھی۔ اس کے تشویش میں اضافہ ہورہا تھا۔
تاریکی میں بھی زوہیب کو اس کے چہرے پر اضطراب اور پریشانی صاف دکھائی دے رہی تھی۔
زوہیب:"کلچ میں کچھ قیمتی تھا؟"
مسکان:" موبائل تھا میرا"
زوہیب:" اوہ تو آپ رنگ کر کے دیکھے" اس نے دوستانہ انداز میں تجویز دی۔
مسکان:" موبائل silent mode پر ہے" اس نے افسوس سے سر جھٹکا۔
زوہیب:" آپ رنگ کر کے دیکھے اگر رنگ جاتی ہے تو مطلب موبائل چوری نہیں ہوا یہی کہیں گرا ہوگا" اس نے پر امید انداز میں مسکان کو ترغیب دیتے ہوئے کہا۔
مسکان:" آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہے" مسکان کو اس کے اعتماد پر حیرت ہوئی۔
زوہیب:" سمپل ہے کوئی بھی موبائل چوری کرنے کے ساتھ ہی سب سے پہلے اسے off کر دیتا ہے یا سم نکال دیتا ہے تا کہ وہ کسی بھی طرح ٹریس نہ کیا جا سکے" اس نے خوش دلی سے مسکرا کے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
اسے زوہیب کا مشورہ اچھا لگا۔
مسکان:" وہ تو ٹھیک ہے پر اس وقت میرے پاس کوئی دوسرا موبائل نہیں ہے تو کال کیسے ملاوں" اس نے مایوسی سے کہتے ہوئے واپس ہال کی طرف جانے کے لیے رخ موڑا۔
زوہیب:" کوئی بات نہیں آپ میرے موبائل سے نمبر ملائے if you don't mind( اگر آپ برا نہ مانے)" اس نے زوہیب کو اپنے جیب سے موبائل نکال کر اس کی طرف بڑھاتے دیکھا۔ مسکان نے متذبذب سی ہو کر اس کے ہاتھ کو دیکھا اور موبائل تھام لیا۔
مسکان:" رنگ جا رہی ہے" اس نے چہکتے ہوئے کہا۔
زوہیب:" good آپ رنگ کرتی رہو میں ایک دفعہ پھر گاڑی میں دیکھتا ہوں" وہ اب سیٹس کے نیچے جھانک رہا تھا۔
وہ موبائل فون کان لگائے اس کے حرکات دیکھ رہی تھی
مسکان:"اتنا بھی برا نہیں ہے یہ جتنا میں نے سوچا" اس نے دل میں اعتراف کیا۔
ڈکی کھولتے ہی سامنے اسے کلچ پڑا ہوا دکھائی دیا۔
زوہیب:" یہ لیں میڈم مل گیا" کلچ اٹھائے وہ مسکان کے سامنے آیا۔
اس کے ہاتھ میں کلچ دیکھتے ہی مسکان کی آنکھیں چمک گئی ۔ اس نے زوہیب کے ہاتھ سے کلچ لیا اور کھول کر دیکھا موبائل وہی پڑا ہوا تھا اس کی سکرین اب بھی روشن تھی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے ایک لمبی سانس لی جیسے جان میں جان آگئی ہو۔
مسکان کو یوں پر سکون ہوتا دیکھ کر زوہیب کو بہت خوشی محسوس ہوئی.
مسکان:" thank you and sorry" اس نے زوہیب کا موبائل واپس دیتے ہوئے جتانے والے انداز میں کہا۔
زوہیب:" thank you کا تو سمجھ آتا ہے پر یہ sorry کس لئے" اس نے ابرو اچکا کے پوچھا۔
مسکان:" مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ کومل آپی کے دیور ہے اور لاشعوری میں آپ کو ڈرائیور مخاطب کیا" اس نے اپنی ندامت ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
زوہیب:" ہاں۔۔۔۔ اس کے لیے سوری تو بنتی ہے لیکن۔۔۔۔ اگر میں آپ کی معذرت قبول نہ کروں تو" اس نے مسکان کے گرد گھومتے ہوئے کہا۔
مسکان:" تو۔۔۔ آپ کی مرضی۔۔ میں نے تو اپنی طرف سے معذرت کر لی" اس نے شانے اچکاتے ہوئے کہا اور وہاں سے روانہ ہوگئی۔
زوہیب اسے جاتا دیکھتا رہ گیا۔
*********************
جس وقت وہ ہال کے اندر پہنچی دولہا دلہن ساتھ بیٹھے تصویریں بنوا رہے تھے۔ بچے اپنے کھیل کود میں لگے تھے۔ نائلہ بیگم اور ثمرین آنٹی سٹیج پر بیٹھی باتوں میں مشغول تھیں۔ مرد حضرات سب جینٹس سائیڈ پر تھے۔
گو کہ دونوں خاندان لبرل طبقے سے تعلق رکھنے والے تھے پھر بھی تقریبات میں مردانہ اور زنانہ پورشن کا الگ الگ انتظام کیا ہوا ہوتا تھا۔
ستارہ DJ کو اپنا پسندیدہ گانا بجانے کی ہدایت دے رہی تھی۔ مسکان کو اس طرف آتا دیکھ اس کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے
ستارہ:" تم نے تو آج حد کردی۔ موبائل ملا؟" اس نے مسکان کو جھڑکتے ہوئے سوال کیا۔
مسکان:"ہاں مل گیا، چلو آپی کے ساتھ تصویریں لیں" اس نے خوشگوار انداز میں کہا۔
موبائل مل جانے پر اس کا کچھ دیر پہلے کا چڑچڑاپن پوری طرح ختم ہوگیا تھا اب باقی کی تقریب وہ اینجوائے کرنا چاہتی تھی۔
کچھ دیر ادھر ادھر ٹہلنے اور ڈانس کرنے کے بعد کھانا لگا دیا گیا۔ زوہیب لیڈیز سائیڈ آ کر ویٹر کو کچھ ہدایت دیتا پھر واپس چلا جاتا۔ ہر مرتبہ آنے پر زوہیب اور مسکان میں نظروں کا تبادلہ ہوتا۔ زوہیب مسکراتا تو مسکان بھی جواب میں مسکرا دیتی۔
**************
تقریب کے اختتام پر صرف دونوں گھروں کے افراد رہ گئے۔ دونوں خاندان کی آپس میں بہت پرانی دوستی تھی اس لئے مرد عورتیں بچے سب اپنے شغل میلے کے لیے اکٹھے ہو گئے اور دائرے کی شکل میں بیٹھ گئے۔
ستارہ:" اب یہ کشن میوزک رکھنے پر جس کے پاس ہوگا اسے کچھ نہ کچھ سنانا ہوگا" اس نے بلند آواز میں اعلان کیا۔
کسی نے شعر سنایا کسی نے لطیفہ اور کسی نے گانا۔ فیملی کے بزرگوں نے ججز کا کردار نبھاتے ہوئے اپنے پسندیدہ شخص کو نمبر دیا۔
آخر میں جس ٹیم کے نمبر زیادہ ہوئے وہ winner ہوگی۔
ٹیم لڑکے والے
ٹیم لڑکی والے
مسکان:"اب پیش خدمت ہے آج رات کی سب سے منفرد پرفارمنس" اس نے اعلان کرنے والے انداز میں کہہ کر کومل آپی کی طرف اشارہ کیا۔
کومل کچھ ہچکچاتے ہوئے گیت گنگنانے لگی
Dehleez pe mere dil ke jo rakhe hai tu ne qadam
Tere naam pe meri zindagi likh di mere hamdam
Han seekha maine jeena jeena kaise jeena
Na seekha jeena tere bina hamdam....
Sachi si hai ye taarefey dil se jo maine kari hai
Tu jo mila to mili hai dunya mere hamdam
Aasman mila zameen ko mere
Aadhe aadhe pore hai hum
Tere naam pe meri zindagi likh di mere hamdam
Han seekha mainy jeena jeena kaise jeena
Na seekha jeena tere bina hamdam...
جہاں ایک طرف عثمان اپنی منگیتر کی سریلی آواز سن کر مسرور ہوا وہیں بشمول زوہیب باقی سب بھی متحیر ہوئے۔
گیت مکمل ہونے پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا سب نے تعریفوں کی بھرمار کر دی۔ اور ٹیم لڑکی والے جیت گئے۔
زوہیب:" نہیں نہیں یہ تو چیٹنگ ہے۔ یہ تو rule میں نہیں تھا ورنہ ہم بھی بھائی کو کچھ تیار کرواتے"۔ اس نے کھڑے ہو کے احتجاج کیا ۔
مسکان:" اس گیم میں کوئی rule نہیں ہوتا، تیار کروا دیا ہوتا کس نے روکا تھا"
زوہیب:" آپ روک سکتی تھی۔۔۔۔ ویسے جیت مبارک"
زوہیب نے مسکرا کر آبرو اٹھا کر اسے دیکھا۔
مسکان کو زوہیب کا یوں تبصرہ کرنا پسند نہیں آیا۔ اس نے کچھ دیر پہلے کا زوہیب کے بارے میں سوچا ہوا اس کے اچھا ہونے کا اعتراف واپس رد کیا۔
*******************
رات دیر گئے گھر پہنچ کر سب تھکے ہارے اپنے بیڈروم میں چلے گئے۔
مسکان کپڑے تبدیل کر کے بیڈ پر لیٹی تقریب کی تصویریں دیکھ رہی تھی فیملی پکچر میں وہ سب کو باری باری زوم کر کے دیکھ رہی تھی۔ اس نے جب تصویر میں زوہیب کو زوم کر کے دیکھا تب جا کہ اسے زوہیب کے ایک گال پر ڈمپل نظر آیا
ایک دفعہ پھر محفل کے سارے مناظر اس کی آنکھوں میں لہرائے۔
مسکان:" کہی میں زوہیب کو غلط تو نہیں لے رہی" اس نے اپنی رائے پر نظر ثانی کرنا چاہی۔
" اففففف میں کیوں اس کے بارے میں سوچوں۔ مجھے کیا وہ جیسا بھی ہو" اس نے جھنجھلا کر زوہیب کا خیال دماغ سے جھٹکا اور آنکھیں بند کردی۔
******************
زوہیب اپنے بیڈروم میں واشروم سے نکلتے ہوئے ساری رو داد یاد کر رہا تھا۔ بیڈ پر لیٹتے ہوئے بھی وہ مسکان کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس دوران اسے کب نیند نے جھکڑا اسے پتہ نہ چلا۔
***************
اگلی صبح معمول کے مطابق آفتاب طلوع ہوا۔ Sunday کا دن تھا سب سست روی سے دن چھڑنے تک سوئے رہے۔
مسکان جب اٹھی تو دن کے 12:30 بج گئے تھے۔ رات کی تھکن اب بھی آنکھوں میں نمایاں تھی۔ سست قدموں سے جمائی روکتی وہ فریش ہونے واشروم چلی گئی۔ 15 منٹ بعد وہ تیار ہو کہ کمرے سے باہر آئی۔
لاؤنج میں بابا ٹی وی کے سامنے صوفہ پر بیٹھے چائے پینے کے ساتھ ساتھ نیوز چینل دیکھنے میں مصروف تھے۔ امی اور بھابھی کچن میں دوپہر کے کھانے کا اہتمام کرتی نظر آرہی تھی۔ عرفان بھائی اپنے بچوں کے ساتھ لان میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔
وہ لاؤنج میں حارث صاحب کو سلام کرتی ہوئی کچن میں گئی۔
مسکان:" good morning ladies" اس نے جوشیلے انداز میں امی اور بھابھی سے کہا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
سائرہ بھابھی:"good afternoon ناشتہ ڈائننگ ٹیبل پر رکھا ہوا ہے" اس نے سبزی کاٹتے ہوئے مصروف انداز میں کہا۔
مسکان:" نہیں ناشتہ نہیں کروں گی صرف چائے لوں گی۔ کیا بن رہا ہے کھانے میں" اس نے کھڑے ہو کے دیگچی میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
امی کے پکوان گنوانے کے بعد وہ ایک کپ چائے اٹھائے بالائی منزل کی سیڑھیوں کی جانب چلی گئی۔
****************
بالائی منزل کا گھر ابھی بھی سناٹے میں تھا۔ وہ دبے پاؤں چلتی ہوئی ستارہ کے کمرے تک آئی اور آہستہ سے ناب گھوما کے دروازہ کھولا لیکن اندر کا منظر دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی۔۔
ستارہ:"آئیں محترمہ نیند پوری ہوگئی آپ کی" اس نے ہنسی سے لوٹ پوٹ بیڈ پر لیٹے پیٹ پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا
جب مسکان اندر داخل ہوئی ستارہ اور کومل کل کے function پر تبصرہ کرتی ہنسی مذاق میں لگی تھی۔۔
مسکان:" کس بات پر اتنی ہنسی آرہی ہے" مسکان نے شرارتی انداز میں اپنے آپ کو ستارہ پر گراتے ہوئے پوچھا۔
ستارہ:" ااااھھھ اللہ پوچھے تمہیں مسکان افففف اتنی زور کی لگی مجھے" ستارہ نے اپنا بازو ملتے ہوئے کہا جو پورا مسکان کے نیچے آگیا تھا۔
مسکان:" بہت اچھا ہوا تم اور اڑاو میرا مذاق" اس نے منہ بناتے ہوئے کہا اور ستارہ سی سی کرتی رہ گئی۔۔
کومل:"بس کرو تم دونوں کیا ہر وقت لڑتی رہتی ہو" کومل کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی کہ اس کا موبائل بجنے لگا اور وہ ہیلو کہتی کمرے سے نکل گئی۔۔۔
****************