سہیل احمد کے گھر تناو کا سماء تھا۔ زوہیب نے گھر پہنچتے ہی اپنا مطالبہ واپس دوہرایا اور اب کی بار ڈیڈ اس پر خوب برس پڑے۔
زوہیب:" تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ تم اس لڑکی سے شادی کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہو۔۔۔۔" وہ تینوں مرد حضرات وہی لاؤنج میں کھڑے ہوگئے۔
زوہیب:" کیوں ڈیڈ خرابی کیا ہے" اس نے بے زاری سے پوچھا
ڈیڈ:" تم نے تو کہا تم اس لڑکی کے بارے میں سب جانتے ہو۔۔۔۔۔ پھر بھی پوچھ رہے ہو خرابی کیا ہے۔" انہوں نے تیز آواز میں کہا۔
زوہیب:" اس سب میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے"
ڈیڈ:" مجھے نہیں لگتا اس کی غلطی نہ ہو۔۔۔۔ اسی نے کسی کو راغب کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ اور پھر کتنی بدنامی ہوگی۔۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے "
زوہیب کے آبرو تن گئے اسے ڈیڈ کا ایسا تبصرہ برا لگا۔
" پلیز ڈیڈ ایسا کچھ بھی مت کہیئے گا جس سے میں باپ بیٹے کی تمیز بھول جاوں۔۔ " اس نے تند آواز میں کہا۔ عثمان نے بحث کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ڈیڈ پورے طیش میں آگئے تھے۔
" تم اب اس لڑکی کے لیے مجھ سے زبان لڑاو گے"
زوہیب نے افسوس سے سر جھٹکا۔ عثمان معاملہ سنبھالتے ہوئے آگے آیا۔
عثمان:" ڈیڈ غلط کیا کہہ رہا ہے۔۔۔۔۔ اور اس خاندان کو تو ہم برسوں سے جانتے ہے مسکان ایسی لڑکی نہیں ہے۔۔۔۔۔ آج کل تو ہمارے ملک میں 4 سے 5 سال کی بچیوں کے بھی ریپ ہورہے ہیں تو کیا وہ بھی خود راغب کرتی ہیں۔۔۔۔ ڈیڈ یہ حوس کے مارے عمر، ذات پات، نسل نہیں دیکھتے انہیں تو بس اپنا شکار چاہیے ہوتا ہے۔۔"
ڈیڈ چپ رہے تو وہ پھر گویا ہوا۔
"اور آپ کو تو زوہیب پر فخر ہونا چاہئے۔۔۔۔۔ اس دور میں بھی اتنے نیک خیالات ہے اس کے۔۔۔۔۔۔ آج کل کے مرد جہاں 4 شادیاں کرنا سنت مانتا ہے وہی کسی بیوہ کی کسی طلاق شدہ یا زنا کی شکار لڑکی کی کفالت کرنے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہے۔۔۔۔۔ تو کیا ایسی خواتین جینا چھوڑ دیں۔۔۔۔ اکیلی رہے تو بھی ہمارا معاشرہ غلط بیانی کرتے ہے ایسے میں اگر زوہیب مسکان کی کفالت کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔ اسے اپنانا چاہتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔۔۔۔ میں زوہیب کے اس فیصلے سے راضی ہوں۔" اس نے سپاٹ انداز میں کہا۔ ڈیڈ نے افسوس بھری نظروں سے عثمان کو دیکھا۔
زوہیب:" اور بھابھی آپ کیا کہتی ہے" وہ جھٹ سے کومل کے پاس آیا۔
کومل:" مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔۔۔۔ میں نے ہمیشہ سے مسکان کو اپنی چھوٹی بہن مانا ہے۔۔۔۔ اور کونسی بہن اپنی چھوٹی بہن کی خوشیاں نہیں چاہے گی"
زوہیب کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے ڈیڈ کی طرف دیکھا وہ ابھی بھی تنے تاثرات کے ساتھ رخ موڑے کھڑے تھے۔
زوہیب:" ڈیڈ۔۔۔" اس نے نرمی سے مخاطب کیا۔
ڈیڈ:" اگر میں پھر بھی نہ مانوں تو"
زوہیب:" تب بھی شادی میں مسکان سے ہی کروں گا اور اسے ساتھ لے جاوں گا اور وہی لندن میں سیٹل ہوجاو گا۔" اس نے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔ ڈیڈ سمیت سب نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ ڈیڈ کو زوہیب کے اس روئیے سے دکھ ہوا۔
ڈیڈ:" تو تم نے پہلے سے ہی سب طے کر کے رکھا ہے۔۔۔۔۔ پھر مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت۔۔۔۔۔۔ میں اب تک زہرا کا غم نہیں بھولا کہ تم ایک اور دینے آگئے۔۔" انہوں نے افسوس سے کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
*****************
سہیل انکل کو غصہ سے جاتے دیکھ کر وہ پریشان ہوگئی تھی اسے زوہیب کی فکر ہورہی تھی وہ اپنی وجہ سے باپ بیٹے کے بیچ لڑائی کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی۔ اب بس وہ یہ سب خیر سے نپٹ جانے کی دعا ہی کر سکتی تھی۔ آج اسے ڈپریشن کی دوائی کھا کر بھی سکون نہیں مل رہا تھا وہ اپنے بیڈروم میں چکر کاٹ رہی تھی۔
***************
اس رات اور اگلا پورا دن زوہیب اور ڈیڈ میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔
اگلی رات کو زوہیب آہستہ سے ڈیڈ کے کمرے میں داخل ہوا وہ اس وقت اپنی راکنگ چیئر پر بیٹھے ہوئے نظر آئے۔
زوہیب ان کے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ڈیڈ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر انہیں مخاطب کیا۔
" ڈیڈ میں جانتا ہوں آپ مجھ سے ناراض ہے۔۔۔۔ مجھے آپ سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔" اسے اپنے کل کے روئیے پر شرمندگی ہورہی تھی۔ ڈیڈ اب بھی خاموش رہے۔
" ڈیڈ آپ نے ہمیشہ ہمیں خود مختار بنایا ہے اپنے فیصلے خود کرنے کا پورا حق دیا ہے۔۔۔۔ آپ ایک مرتبہ میری نظر سے دیکھے تو میرا یہ فیصلہ بھی غلط نہیں ہے۔۔۔۔۔ ڈیڈ یہ دنیا کے لوگ کبھی خوش نہیں ہوتے کسی نہ کسی طرح انہیں تبصرہ کرنے کے لیے بات مل ہی جاتی ہے تو کیا ہم اس خوف سے اپنی مرضی سے جینا چھوڑ دیں۔" ڈیڈ کے سنجیدہ تاثرات میں کوئی نرمی نہیں آئی۔
"ڈیڈ۔۔۔ آپ اب سے میرے ماں باپ دونوں ہو آپ کی رضامندی کے بغیر میرے لئے کوئی بھی قدم اٹھانا نا ممکن ہے۔" اس نے اپنی بات مکمل کی تو ڈیڈ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
" میں صرف تمہاری خوشی چاہتا ہوں بیٹا۔"
زوہیب نے مسکرا کر ان کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔
" آپ کا خدشہ میں اچھے سے سمجھتا ہوں ڈیڈ۔۔۔۔۔ لیکن میری خوشی مسکان کے ساتھ ہے۔۔۔۔ میں آپ کو حقیقت بتاوں"
ڈیڈ نے حرانی سے اسے دیکھا
"کیسی حقیقت"
زوہیب نے ایک لمبی سانس لی اور کھڑے ہوکر ٹہلتے ہوئے ڈیڈ کو اپنے اور مسکان کے پہلی ملاقات سے اس کے اچانک غائب ہونے تک کے سارے واقعات بتا دیئے۔
اس کی کہانی سن کر ڈیڈ بھی کھڑے ہوگئے۔
" تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا"
زوہیب:" میں اس سردیوں کی چھٹیوں میں گھر آکر مما سے بات کرنے والا تھا لیکن۔۔۔۔۔ "اس نے افسردگی سے کہا
"لیکن میری ہمیشہ سے پہلی ترجیح مسکان ہی رہی ہے ڈیڈ۔۔۔۔ اسے مجھ سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔۔۔ اس رشتہ کے لئے مان جائے ڈیڈ۔" اس نے ڈیڈ سے التجا کی۔
ڈیڈ نے ایک لمبی سانس لی اور زوہیب کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"ٹھیک ہے تمہاری خوشی اسی میں ہے تو میں تیار ہوں۔۔۔۔۔ لیکن تم کبھی مجھے چھوڑ کر جانے کی بات مت کرنا۔۔۔۔۔۔ میرے پاس اب تم اور عثمان ہی ہو۔ اور میں تم دونوں کو کھونا نہیں چاہتا " انہوں نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔
زوہیب ڈیڈ کے آنکھوں میں آنسو آتے دیکھ کر ان کے گلے لگ گیا۔
"کیسی بات کر رہے ہے میں آپ کو کبھی چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔۔۔۔۔ وہ تو بس بلیک میل کرنے کے لیے کہا تھا۔" اسنے مسکراہٹ دبائے ہوئے کہا۔
" ویسے میرے پاس ایک اور ترقیب بھی ہے" اس نے ڈیڈ کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے شرارتی انداز میں کہا۔
ڈیڈ:" کیا"
زوہیب ان کے قریب گیا اور کان میں سرگوشی کی۔
" آپ۔۔۔ کی دوسری۔۔۔۔ شادی کروا دیں۔
ڈیڈ نے اسے خود سے دور کیا
"نکل"
اسے انگلی اٹھا کر باہر جانے کی تنبیہہ کی۔
"ارے ڈیڈ اچھا ایئڈیا ہے۔۔۔۔۔"
ڈیڈ:" نکلو میرے کمرے سے " ڈیڈ ڈانٹتے ہوئے اس کے پیچے آئے تو وہ دروازے کے پار بھاگ گیا۔
ڈیڈ نے ہنستے ہوئے سر جھٹکا اور دروازہ بند کر کے واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔
***********************
اتوار کے دن زوہیب اور اس کی فیملی مسکان کے گھر شریعی رشتہ لے کر گئے۔ حارث صاحب کی تو جیسے من چاہی خواہش پوری ہوگئی۔
ڈیڈ:" حارث صاحب مشکل وقت سب پر آتا ہے اور پھر رشتہ داروں کو ہی ایک دوسرے کا ہمدرد بننا چاہئیے۔ آج میں اپنے فیملی کے متفقہ فیصلے سے زوہیب کے لیے مسکان کا رشتہ مانگتا ہوں۔" انہوں نے بڑے صوفے پر بیٹھے ہوئے اطمینان سے کہا۔
زوہیب ان کے پیچے صوفے پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا اور مسکان کچن کے پاس، دونوں کی نظریں ملی تو زوہیب خوش اعتمادی سے مسکرا دیا۔
حارث صاحب نے مڑ کر مسکان کو دیکھا جو نظریں جھکائے کھڑی تھی پھر رخ سہیل صاحب کی طرف کیا۔
" زندگی میں شاید کوئی بہت نیک عمل کیا ہے جس کا صلا آپ لوگوں کے روپ میں مل رہا ہے میری تو امید ہی ختم ہوگئی تھی۔" بابا نے زوہیب کو دیکھا
"مجھے سر آنکھوں پر یہ رشتہ قبول ہے۔" سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آپس میں مبارکباد دیئے گئے۔ مسکان کی آنکھیں بھر آگئی۔
بابا:" یہ سب تمہاری وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔۔۔۔ تمہارا احسان رہے گا مجھ پر" انہوں کو زوہیب کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
زوہیب جھٹ سے آگے آیا اور بابا کے ہاتھ پکڑ لیئے
" ارے کیا کر رہے ہے انکل پلیز۔۔۔۔۔۔ شرمندہ مت کیجیئے۔۔۔۔ میں آپ پر کوئی احسان نہیں کر رہا۔۔۔۔۔ میں نے جو بھی کیا اپنے دل سے کیا۔۔"
بابا نے دعائیں دیتے ہوئے زوہیب کو گلے لگایا
" خوش رہو۔۔۔۔ جیتے رہو۔۔۔۔۔"
سب کے متفقہ رائے سے 15 دن بعد ستارہ کے شادی کے دن ہی زوہیب اور مسکان کا سادگی سے نکاح کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔
کچھ اور رسم رسوم کی باتوں پر مباحثہ کر کے رخصت لی گئی۔ جاتے وقت سہیل صاحب مسکان سے اچھے سے ملے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔
انہیں گیٹ تک چھوڑنے سب ساتھ گئے صرف مسکان وہی لاؤنج کے سرے پر کھڑی ہوگئی زوہیب آگے جاتے جاتے الٹے قدم واپس آیا اور مسکان کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
" آپ کا یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔۔۔۔۔۔ کوئی اور خدمت میڈم۔۔" اس نے آبرو اچکا کر پوچھا۔
مسکان ہلکا کا مسکرائی
"نہیں thank you for everything "
زوہیب نے تسلی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
" اپنا خیال رکھنا۔۔۔ جلد ملتے ہیں"
زوہیب اس سے رخصت لیتا وہاں سے چلا گیا۔
*************************
وہ ابھی وہی لاؤنج میں سے برتن اٹھا رہی تھی جب بابا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ وہ چونک کر بابا کی طرف متوجہ ہوئی۔
بابا:" مجھے اپنے حق بخش دینا بیٹا۔ میں بہت برا باپ ہوں" انہوں نے افسردگی سے کہا۔
مسکان:" نہیں بابا پلیز۔۔۔۔۔ ایسا کہہ کر مجھے اور گنہگار مت بنائیں۔ آپ سب سے اچھے باپ ہے۔۔۔۔۔ معافی مجھے مانگنی چاہیے میں آپ کے عزت کی لاج نہیں رکھ پائی" اس نے اشک بار آنکھوں سے کہا اور بابا کے گلے لگ گئی۔ بابا نے اس کے گرد بازو مائل کئے اور اس کے سر پر بوسہ لیا۔
نائلہ بیگم:"جانے دیں پرانی باتیں آج خوشی کا دن ہے غمگین نہ ہو۔۔۔۔۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ہمیں زوہیب جیسے داماد سے نوازہ جو پورے دل سے ہماری بیٹی کو اپنا رہا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیئے ہمیں" انہوں نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔
بابا:" ہاں یہ تو بلکل درست بات کہی۔۔۔۔۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر۔۔۔۔۔ بیشک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔۔۔۔۔۔ چلو عرفان مسجد میں کچھ صدقہ نیاز کرواتے ہیں۔"
بابا اور عرفان مسجد کے لئے نکل گئے اور وہ اپنے کمرے میں آگئی۔ وہ اس رشتے سے خوش تو تھی لیکن دل میں اب بھی ایک خوف سا تھا۔ وہ ناخن کاٹتی کمرے میں چکر کاٹ رہی تھی اور اگلے دن اس نے سائکالوجسٹ کے پاس جا کر مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس دن کا آفتاب معمول کا روشن تھا۔ وہ امی کے ہمراہ ڈاکٹر کے کمرے میں موجود تھی۔
معمول کے چیک اپ کے بعد وہ کمرے سے باہر آئی۔
مسکان:" امی آپ یہاں بیٹھو میں ڈاکٹر سے کچھ بات کر کے آتی ہوں۔" اس نے امی کو باہر بینچ پر بیٹھاتے ہوئے کہا۔
امی:" کیا ہوا سب خیریت تو ہے۔" انہوں نے فکرمندی سے پوچھا۔
مسکان:" جی امی سب خیریت ہے بس ایک دو باتیں پوچھنی ہے۔۔۔۔۔ آپ بیٹھو بس 2 منٹ۔" وہ امی کو بیٹھا کر واپس دستک دیتی ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئی۔
ڈاکٹر:" آو مسکان۔۔۔ " وہ قلم رکھتی مسکان کی طرف متوجہ ہوئی۔
مسکان کچھ جھجکتے ہوئے بیٹھی اور اضطراب میں آس پاس دیکھنے لگی۔ ڈاکٹر اس کی پریشانی سمجھ گئی۔
"کہو مسکان کیا بات ہے"
مسکان:" میم۔۔۔۔۔ میری شادی طے ہوگئی ہے۔ " اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے بات شروع کی۔
ڈاکٹر:" اووو مبارک ہو۔۔۔۔ یہ تو اچھی خبر ہے۔ " انہوں نے خوش دلی سے مبارکباد پیش کی۔
مسکان:" شکریہ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ میں بہت پریشان ہوں۔"
ڈاکٹر:" کیسی پریشانی" وہ گھور سے مسکان کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
مسکان:" جس سے میری شادی طے ہوئی ہے وہ بہت اچھے انسان ہے۔۔۔۔ ہمیشہ میری خوشی کا خیال رکھا ہے۔۔۔۔۔ لیکن مجھے ڈر ہے کیا میں انہیں خوش کر پاو گی۔۔۔۔ مطلب شادی کے بعد۔۔۔۔" وہ بات مکمل کرنے کے لیے آگے کے الفاظ سوچ رہی تھی کہ ڈاکٹر نے اس کی بات مکمل کی۔
" تمہارا مطلب physical relation (جسمانی تعلق)" انہوں نے اپنی سیٹ سے اٹھتے ہوئے کہا۔
مسکان:" جی۔۔۔۔ میں جب بھی اس لمحے کے بارے میں سوچتی ہوں مجھے وہ حادثہ یاد آجاتا ہے اور میں ڈر جاتی ہوں۔۔۔۔ تو پتہ نہیں ایسے میں، میں اپنے بیوی ہونے کے فرائض کیسے پورے کروں گی۔" اس نے مایوسی سے اپنی کیفیت کا اظہار کیا اور ڈاکٹر کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
ڈاکٹر:"میں سمجھ گئی۔۔۔۔۔۔ مسکان تم جسمانی طور پر بلکل صحت مند ہو شادی شدہ زندگی پورے تسکین کے ساتھ گزار سکتی ہو اور آگے جا کر ماں بھی بن سکتی ہو۔۔۔۔" انہوں نے مسکرا کر تسکی دی۔
"بس تمہیں ذہنی طور پر خود کو یقین دلانا ہے۔۔۔۔ وہ شخص تمہارا محرم ہے تمہارا شوہر جس کا تم پر پورا حق ہے۔۔۔۔۔ اور یہ حق ادا کرنا تمہارا فرض۔۔۔۔۔ تم زیادہ پریشان مت ہو مجھے یقین ہے تم سب بہت اچھے سے سنبھال لو گی۔" انہوں نے شفقت سے مسکان کا گال تھپتھپایا۔
ڈاکٹر کی باتوں سے اسے بہت حوصلہ ملا۔ کسی حد تک اس کی پریشانی کم ہوگئی۔ وہ ان کا شکریہ ادا کرتی باہر آئی اور خوشگوار مزاجی سے امی کے ساتھ گھر کے جانب روانہ ہوئی۔
****************