وہ دن معمول کا گزرا تھا۔ عثمان کو رخصت کر کے کومل کچھ دن میکے رہنے آئی تھی۔ رات وہ دیر تک ستارہ اور کومل کے ساتھ باتوں میں لگی رہی آدھی رات وہ اپنے بیڈروم میں آئی۔ کپڑے تبدیل کر کے وضو کیا اور عیشاء کی نماز پڑھی۔ دعا میں ہاتھ اٹھا کر اس نے زوہیب کے خیر سے اچھے سفر کی دعا بھی کی۔ جس وقت وہ سونے کے لیے لیٹی 1 بج گیا تھا اس کی آنکھ لگی ہی تھی کہ موبائل بجنے لگا۔ وہ ایک جھٹکے سے ہڑبڑای اور موبائل کال اٹھا لیا۔ کال زوہیب کی تھی اس نے خوابیدہ آواز میں زبردستی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرتی ہیلو کہا۔
زوہیب:" کیا کر رہی تھی" وہ ابھی ابھی اپنی پیکنگ مکمل کر کے لیٹا تھا صبح سویرے 6 بجے کی اس کی فلائٹ تھی۔
مسکان:" اس وقت" اس نے آنکھیں جھپکاتے کھولتے وقت دیکھا گھڑی 2 بجا رہی تھی۔
"اس وقت تو سو رہی تھی اور کیا کروں گی۔" اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی لی۔
"آپ کیوں نہیں سوئے۔" اسے سخت نیند نے آجھکڑا تھا۔
زوہیب:" صبح کی فلائٹ ہے میری" وہ بیڈ پر کروٹ لیئے لیٹا کھڑکی سے باہر نظر آتے چاند تاروں کو تک رہا تھا۔
مسکان:" ہاں وہ تو پتہ ہے۔۔۔۔ تو کیا پیکنگ نہیں ہوئی۔" اس نے سستاتے ہوئے ایک اور جمائی لی۔
زوہیب:" پیکنگ تو ہوگئی ہے۔۔۔۔۔ بس تمہاری یاد آرہی ہے۔۔۔"
مسکان:" ابھی سے یاد آرہی ہے۔ ابھی تک تو آپ گئے بھی نہیں ہو ۔۔۔۔ وہاں کیا کریں گے۔" اس نے آنکھیں بند رکھے ہوئے ہی آبرو اچکائے۔
زوہیب:" ھممممم وہاں کسی انگلش میم سے کام چلا لوں گا۔" زوہیب نے شرارتی مسکراہٹ دبائے ہوئے تنگ کیا۔
مسکان نے جھٹ آنکھیں کھول لی۔ ایک لمحے کے لیے اس کی نیند اڑ گئی۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ چھڑتا اور دوسرا اترنے لگا۔
زوہیب:"کیا ہوا کچھ جل رہا ہے کیا۔" اس نے شرارتی انداز میں کہا۔
مسکان:" نہیں تو۔۔۔" اس نے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔
زوہیب:" اچھا۔۔۔ مجھے تو جیلس گرل فرینڈ والی فیلینگ آرہی ہے" وہ ہنسنے لگا۔
مسکان:" جیلس نہیں ہو رہی۔۔۔ اتنا یقین تو ہے آپ پر۔۔۔ بس نیند آرہی ہے سونا چاہتی ہوں۔" اس نے بغیر تنگ ہوئے واپس آنکھیں بند کی اور اس دفعہ وہ سچ میں سوگئی تھی۔
وہ کالج کے لیے الارم پر جاگی۔ موبائل اب بھی کان کے پاس پڑا ہوا تھا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا 1 گھنٹے 17 منٹ تک کال چلی تھی۔
وہ حیران پریشان سوچ میں پڑھ گئی۔
"میں نے 5 سے 10 منٹ ہی بات کی ہوگی پھر زوہیب نے فون کیوں نہیں کاٹا۔" یہ سوچتے ہوئے اس نے فون کرنے کا سوچا لیکن وقت دیکھ کر رک گئی۔
"اس وقت وہ فلائٹ میں ہوگا" وہ سوچتے ہوئے اٹھی اور کالج کے لیے تیار ہونے چلی گئی۔
***************
زوہیب رات کے 11 بجے لندن کے ایئرپورٹ پر لینڈ ہوا۔ لائن میں چلتا اپنے سامان کی ٹرالی دھکیالتا باہر آیا تو فاروق نے بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اسے گلے سے لگایا۔
فاروق:" welcome little brother (خوش آمدید چھوٹے بھائی ) سفر کیسا رہا۔" اس سے الگ ہوتے ہوئے وہ زوہیب سے حال چال دریافت کرنے لگا۔
زوہیب:" too exhausting ( بہت تھکا دینے والا)۔۔ اتنا لمبا سفر میں نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔
فاروق:" کوئی بات نہیں اب گھر جا کے لبما آرام بھی کرنا۔" وہ اسے ساتھ لیئے ٹرمینل سے باہر آیا۔ کار کے ساتھ فاروق کی بیوی خوش دلی سے زوہیب سے ملی۔ فاروق تب تک زوہیب کا سامان کار میں رکھوا چکا تھا۔
وہ دونوں میاں بیوی آگے بیٹھے اور زوہیب پیچھے کی سیٹ پر بیٹھا۔ گھر تک کا سفر دلکش اور خوشگوار گزرا۔ فاروق اور شیزا اس سے پاکستان اور گھر والوں کی خیر خبر پوچھتے رہیں اور وہ پورا راستہ کھڑکی سے باہر لندن شہر کے نظارے کرتا ان کا جواب دیتا رہا۔
فاروق، زوہیب کا چچیرا بھائی ہے۔ 9 سال سے لندن میں مقیم ہے۔ عمر میں زوہیب سے 6 سال بڑا ہے لیکن قد کاٹ سے وہ زوہیب سے بھی چھوٹا لگتا ہے۔
فاروق:" یہ رہا میرا گھر۔ once again welcome (ایک دفعہ پھر خوش آمدید)۔ اس نے اپنے اپارٹمنٹ میں قدم رکھتے کہا۔
زوہیب اپنے سوٹکیس کا دستہ پکڑے قدم قدم چلتا اندر آیا اور اپارٹمنٹ میں نظر گردانی کی۔ تین چھوٹے بیڈرومز پر مشتمل تیسرے منزل پر موجود اس گھر کو بہت نفاست سے سجایا گیا تھا۔
گیٹ سے داخل ہوتے ہی لاؤنج تھا سامنے اوپن کچن اور بالکونی کے آگے میز اور کرسی رکھے چھوٹا سا ڈائننگ ایریا۔
بائیں طرف ایک سمت میں بنے 3 چھوٹے کمرے۔ پہلا کمرہ ان میاں بیوی کا تھا بیچ کا کمرہ بچوں کا اور آخر کا تیسرا کمرا زوہیب کے لئے تیار کروایا گیا تھا۔
فاروق:" آو میں تمہیں تمہارا کمرہ دکھاوں۔" وہ اسے تیسرے کمرے میں لے گیا۔
سامنے دیوار کے ساتھ ایک سنگل بیڈ اور ساتھ ایک الماری رکھی گئی تھی۔ زوہیب کو لندن میں ایڈجسٹ ہونے تک فاروق کے اپارٹمنٹ میں رہنا تھا۔ وہ مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور اپنا سوٹکیس دیوار کے ساتھ ٹکا دیا۔
فاروق:" تم فریش ہو کے کچھ دیر آرام کرو کھانا لگتے ہی میں بلا لوں گا۔" وہ اسے تنبیہہ کرتے ہوئے کمرے سے باہر گیا۔
****************
آج انہیں کالج میں فائنل ٹرم امتحانات کی ڈیٹ شیٹ مل گئی تھی اگلے سوموار سے امتحانات شروع ہونے والے تھے۔ وہ کالج سے لوٹنے کے بعد پڑھنے بیٹھ گئی تھی۔
ڈنر کے بعد مسکان کچھ دیر پڑھائی سے تفریح کرنے ستارہ اور کومل کے پاس آگئی تھی
لیکن ان کے ساتھ بھی اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن بھی زوہیب سے بات نا کرنے پر اس کی یہ حالت ہوجائے گی۔ زوہیب کی کل رات والی کیفیت کا اسے اب احساس ہو رہا تھا۔ بیڈ روم آکر اس نے موبائل دیکھا زوہیب اب تک online نہیں ہوا تھا۔
مسکان:"( کوئی بات نہیں مسکان شاید ابھی تک پہنچا نہ ہو یا۔۔۔۔۔۔ انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہ ہو۔۔۔۔۔ کر لے گا میسج اداس مت ہو) اس نے خود کو تسلی دی اور پھر سے کتاب اٹھا لی۔
**************
وہ فریش ہو کے لاؤنج میں آیا۔ شیزا اوپن کچن میں کٹلٹس فرائی کر رہی تھی اور فاروق میز پر تین بندوں کے مطابق برتن لگا رہا تھا.
زوہیب:" آپ کے بچے نظر نہیں آرہے بھائی" زوہیب نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
فاروق:" ہاں وہ آج اپنی نانی کے ہاں رہنے گئے ہیں۔" وہ بھی اب آکے زوہیب کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔
شیزا:" ہاں ہم نے سوچا رات دیر سے پہنچے گے اور پھر تم تھکے ہارے آو گے کہی ڈسٹرب نہ ہوجاو تو اس لئے انہیں میری مام کے ہاں چھوڑ آئے۔" اس نے سلاد کاٹتے ہوئے مصروف انداز میں کہا۔ فاروق کو شیزا کی بات پر شرمندگی محسوس ہوئی ۔ اور زوہیب سر جھٹکتا ہوا مسکرایا۔
فاروق:" زوہیب اب سے یہ تمہارا بھی گھر ہے تمہیں کچھ بھی ضرورت ہو تم بے فکر ہو کر بول دینا۔" اس نے زوہیب کے کندھے کو تھپکتے ہوئے آفر کیا۔
زوہیب:" شکریہ بھائی۔۔۔ فلحال صرف وائی فائی کروا دیں ڈیڈ کو اطلاع دینی ہے پھر صبح جا کر میرے لئے یہاں کی سم نکلوا لیں گے۔
فاروق نے اسے وائی فائی کا پاسورڈ نوٹ کروایا تب تک کھانا تیار ہوگیا تھا۔ وہ دونوں ایک ساتھ کھانے کے ٹیبل پر آگئے۔
کھانے کے بعد زوہیب اپنے کمرے میں سونے کے لیے آرہا تھا جب فاروق نے اسے روک لیا۔
فاروق:" زوہیب تم شیزا کی بات کا برا مت منانا وہ زرا منہ پھٹ ہے کچھ بھی بول دیتی یے۔" اس نے احتیاطی انداز سے اسے سمجھایا۔
زوہیب:" کوئی بات نہیں بھائی میں سمجھ سکتا ہوں۔" اس نے دلاسہ دے کر کہا۔
فاروق:" ہاں سمجھدار تو تم ہو ہی۔۔۔ چلو اب سوجاو صبح ملتے ہیں۔۔۔ گڈ نائٹ۔
زوہیب:" گڈ نائٹ" وہ دروازہ بند کر کے اندر آیا۔ لمبے سفر کے باعث تھکن سے اس کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ وہ بیڈ پر بیٹھا اور سر درد کی گولی کھا کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔
***************
اگلی شام کو وہ ریاضی کا سوال حل کرنے کومل کے پاس سمجھنے بیٹھی تھی۔ ستارہ بھی کتاب منہ کے آگے کیے ٹہلتے ہوئے اپنا یاد کر رہی تھی۔
سائرہ بھابھی:" مسکان۔۔۔۔۔ تیرا فون بج رہا ہے۔" انہوں نے سیڑھیوں کے سرے پر کھڑے ہوئے اپنا سر اوپر کر کے مسکان کو آواز لگائی۔
مسکان:" میرا فون۔۔" وہ موبائل چارج پر رکھے اوپر آئی تھی اب کال کا سن کے جھٹ سے اٹھی اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئی۔ بھاگ کر اپنے کمرے میں آئی اور فون اٹھایا۔ کال کسی انٹرنیشنل نمبر سے آرہی تھی اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگی۔
مسکان:" ہیلو۔۔۔ سلام علیکم۔۔۔۔" اس نے کال اٹھاتے ہی پہل کی۔
زوہیب:" وو۔۔۔ وعلیکم السلام۔۔۔۔ کیسی ہو اور آواز کو کیا ہوا ہے۔" اس نے بیچینی سے پوچھا۔
مسکان:" میں اوپر تھی موبائل نیچے چارج پر لگا تھا کال کا سن کے بھاگتے ہوئے آئی ہوں تو سانس پھول گئی۔" اس نے پھولے تنفس کے ساتھ خوشی سے چہکتے ہوئے کہا "آپ خیر سے پہنچ گئے" اس نے بیٹھ کر اپنا تنفس نارمل کرنے کی کوشش کی۔
زوہیب:" ہاں کل رات پہنچ گیا تھا جب تک موبائل اٹھانے کی فرصت ملی پاکستان میں رات کے 3 بج گئے اس لئے ڈسٹرب نہیں کیا۔ اور پھر صبح immigration office جانا پڑا تو اب جا کے بات کرنے کا موقع ملا۔ پہلے ڈیڈ کو کال کر کے اطلاع دی اور اب تم سے بات ہورہی ہے۔" اس نے تہمل سے ساری تفصیل بتائی۔
مسکان:" اور وہاں کے بھائی بھابھی کیسے ہیں۔ " پوری تیس گھنٹے بعد وہ اس کی آواز سن رہی تھی اس لیے وہ چاہتی تھی کہ وہ بولتا رہے اور وہ سنتی رہے۔
زوہیب:" بھائی اچھے ہے بس بھابھی تھوڑی annoying (تنگ کرنے والی) ہے اور بچوں سے اب تک ملا نہیں ہو۔"
یہ کہتے ہی اس نے لاؤنج میں بچوں کا شور برپا ہوتے سنا۔ کوئی رو رہا تھا کوئی چیخ رہا تھا کوئی باجا بجا رہا تھا۔ زوہیب کو تعجب ہوا۔ وہ مسکان سے بات ختم کرتا لاؤنج میں آیا۔ اور اس وقت لاؤنج کی حالت دیکھ کر وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا کہ رات کو فاروق بچوں کو کیوں ساس کے گھر چھوڑ آیا تھا۔
شیزا:" بچوں چلو انکل کو ہائے کرو" اسے لاؤنج میں دیکھ کر شیزا نے اپنے بچوں کو متوجہ کیا۔
ان میں سے درمیانی بچے نے جو صوفے پر اچھل کود رہا تھا، صوفے کا کشن اٹھایا اور زوہیب کے جانب اچھالی۔ زوہیب کے لیے یہ حملہ غیر متوقع تھا وہ ایک قدم پیچھے ہٹا اور کشن اس کے قدموں میں جا گرا۔
شیزا اپنی چھوٹی بیٹی کو زبردستی کچھ کھلانے میں مصروف تھی اس حرکت پر اپنے بیٹے کو ڈانٹنے لگی۔ زوہیب حیرانگی سے اپنی ہنسی دبائے ہوئے نیچھے جھکا اور کشن اٹھا لیا۔( یہ اس کے ہائے کرنے کا طریقہ ہے تو بائے کرنے کا کیا ہوگا) اسے سوچتے ہوئے پھر ہنسی آرہی تھی۔ وہ کچھ دیر باہر جانے کا کہہ کر اپارٹمنٹ کے سامنے سبزہ پر ٹہلنے آگیا۔
مسکان:" ھاھاھاھاھ۔۔۔۔۔ اب عادت ڈال لو بچوں کے شرارتوں کو برداشت کرنے کی۔ جب اپنے ہونگے تب کیا کرو گے۔" زوہیب کی رو داد سننے پر وہ زور سے ہنسنے لگی۔
زوہیب:" کم از کم میرے بچے ایسے نہیں ہونگے" وہ ایک بینج پر بیٹھا سامنے فٹبال کھیلتے انگریز بچوں کو دیکھ رہا تھا۔
مسکان اپنے کمرے میں کتابوں کی ڈھیر لگائے بیٹھی اس سے باتیں کر رہی تھی جب عرفان بھائی اس کے کمرے میں در آئے۔ اس نے بھوکلا کے موبائل نیچے کر کے بند کردیا۔
عرفان:" مسکان تمہیں مجھ سے سٹیٹس کا کچھ پوچھنا تھا نا" اس نے دروازے پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔
مسکان:"جی بھائی۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ " اس نے اٹک اٹک کر کہا
عرفان:"ٹھیک ہے۔۔۔ جلدی کتاب لیئے باہر آو ابھی میں فارغ ہوں سمجھا دیتا ہوں۔" وہ اسے تنبیہہ کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
مسکان نے ایک نظر فون پر ڈالی جہاں پھر سے زوہیب کی کال آرہی تھی وہ اٹھانا چاہتی تھی لیکن عرفان کی پکار سن کر جلدی سے باہر لاؤنج میں چلی گئی۔
اچانک فون بند ہونے پر وہ گھبرا گیا۔ اس نے فون کان سے ہٹا کر دیکھا کہ شاید کنیکشن میں مسئلہ ہوسکتا ہے۔
زوہیب:" ایسے کال کیوں کاٹ دی" اس نے پھر سے کال ملانے شروع کیے پر جواب ندارد۔ اب اسے فکر ہونے لگی وہ بینچ سے اٹھا اور کمر پہ ہاتھ رکھے ہونٹ کاٹتا اضطراب میں چکر کاٹنے لگا۔
" کہی کسی نے فون پر بات کرتے پکڑ تو نہیں لیا"۔ وہ شدید پریشان ہوا۔ اس کے دل میں شیطانی وسوسے ہونے لگے ٹھنڈی ہوا کے باوجود اس کے ماتھے پہ پسینے نمودار ہوئے۔ وہ مسلسل چکر کاٹتا کالز ملا رہا تھا۔
*******************