احمد کو سامنے کھڑا دیکھ کر مالا کو دو ثانیے کیلیے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔
اور پھر جب دماغ نے ساتھ دیا تو اس کی سانسوں میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ اسکا دل اتنے زور زور سے دھڑکنے لگا کہ اسے لگا ابھی اسکا سینہ چیر کر باہر نکل آئے گا۔
اس کے اردگرد سارا منظر دھندلا گیا ۔ بس وہ تھی اور احمد ۔۔ اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ احمد سے کیا بات کرے گی؟ اس کے الفاظ اسکا ساتھ چھوڑ گئے۔
اور احمد۔۔۔وہ تو ایسے کھڑا تھا جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ جیسے برس کا یہ فاصلہ کبھی مالا نے صدیوں میں طے کرنے کی مشقت نہ اٹھائی ہو۔
مالا جن راہوں سے آبلہ پا رسوا ہو کر تنہا نکلی تھی احمد کی موجودگی نے اسے اسی خاردار راہ پر واپسی کی آس دلائی تو بےاختیار اسکے وجود کےاندر سے چیخیں نکلنے لگیں۔ مگر یہ چیخیں صرف اسے ہی سنائی دے رہی تھیں۔ اسے خود نہیں معلوم تھا کہ اس نے احمد سے کیا کہنا ہے۔۔؟چلے جانے کے شکوے کرنے ہیں یا وقت پر لوٹ نہ آنے کا گلہ ۔ اسے تنہا چھوڑ جانے پر بےپناہ نفرت کا اظہار یا پھر اس کے واپس آ جانے پر غصہ۔
ہاں مگر ان سب جذبات پر ایک ہی جذبہ غالب تھا ۔اور وہ تھی بےبسی۔ مالا کی بے بسی ۔۔۔اس کی قسمت کی بے بسی۔۔۔اس کی تقدیر کی بے بسی۔۔۔مالا نے خود کو زنجیروں میں جکڑا پایا ۔ پھر دفعتا اس نے جیسے ساری زنجیریں توڑ دیں اور باہر بھاگ گئی۔ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب وہ بھاگتے ہوئے یونیورسٹی گراونڈ پار کر کے خارجی دروازے کے پاس جا پہنچی۔
باہر حیدر اسکا منتظر تھا۔ جو اب اس کا نصیب اورمحبوب تھا۔
حیدر مالا کو اس طرح دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ صبح تو اسے بالکل خوشگوار موڈ میں چھوڑ کر گیا تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ مالا کی ایسی حالت ہو گئی۔ وہ اچھا خاصا فکر مند ہو گیا۔ مالا نے بس اتنا ہی کہا “حیدر یہاں سے لے چلو۔ مجھے یہاں سے بہت دور لے چلو۔ ”
حیدر اسکی حالت دیکھ کر مصلحتاً خاموش ہو گیا اور چپ چاپ گاڑی سڑک پر ڈال دی۔ مالا کے چہرے پر سارا رستہ زردی چھائی رہی۔
عشق میں زرد رنگ محبت کا نوحہ ہے۔ یہ قاتل رنگ آنکھوں کی چمک چھین لیتا ہے۔ اسکی لائی خزاں سے دل کا نگر بےنور اور روح ویران ہونے لگے تو محبت بال کھولے ماتم کرتی ہے۔
مالا بھی ماتم کناں تھی۔۔۔۔جانے اپنےگزرے ہوئے نصیب پر ۔۔یا اپنی آنے والی تقدیر پر۔۔۔
“مالا تم ٹھیک تو ہو نا”
حیدر بےچین تھا۔۔۔اسکی بے چینی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ مالا کی حالت اس کے دل پر قیامت ڈھا رہی تھی۔
اور مالا ۔۔۔وہ تو ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی۔سانس لینا بھی مشکل لگ رہا تھا۔یوں جیسے اسکے دل پر منوں بوجھ ہو۔
وہ تب سے خاموش بیٹھی تھی۔ مگر حیدر کے استفسار پر بس اتنا ہی بولی “ہمم میری طبعیت ٹھیک نہیں ۔ ہلیز مجھے گھر چھوڑ دیں۔ بعد میں بات کرتے ہیں”
” اوہو مجھے لگ رہا ہے شاید صبح باہر کا کھانا کھانے سے تمہاری طبعیت خراب ہو گئی۔ تمہیں تو پسینہ بھی آ رہا ہے”
حیدر نے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ مالا کا ماتھا اسے ٹھنڈا محسوس ہوا۔
“اوہو تمہیں تو ٹھنڈے پسینے آ رہے ہیں۔ اچھا میں تمہیں میڈیسن لے دیتا ہوں یہیں کسی اسٹور سے۔ بس گھر جا کر میڈیسن کھا کر آرام کرنا۔ پھر بات کریں گے ”
حیدر نے مالا کی طبعیت کو فوڈ پوآئزنگ سمجھا اور اسے دوا لے دی۔ گاڑی گیٹ پر رکی تو حیدر نے فورا اتر کر مالا کے لیے دروازہ کھولا ۔
مالا اتری اور اندر جانے ہی لگی تھی کہ حیدر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔۔
اس سے پہلے کہ مالا کچھ سمجھتی حیدر نے اسکی پیشانی پر ایک بوسہ ثبت کیا “اپنا خیال رکھنا۔ میں تمہارے لیے پریشان ہوں۔ اور جب تک تم ٹھیک ہو کر کال نہیں کرو گی۔ میں فکرمند رہوں گا۔ ”
مالا نے ہونٹوں پر زبردستی مسکان طاری کی اور اثبات میں سر ہلایا۔
مالا اندر چلی گئی۔ حیدر پریشانی کے عالم میں واپس گاڑی میں بیٹھا اور نمبر ڈائل کیا . فون مالا کی امی نے ریسیو کیا تو حیدر نے انہیں سلام کرنے بعد کہا “آنٹی مالا کا دھیان رکھیے گا۔ صبح ناشتہ باہر کرنے کی وجہ سے شاید اسکی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ میں نے دوا لے دی ہے۔۔وقت پر اسے دے دیجیے گا۔… ٹھیک ہے۔ ۔بہت بہت شکریہ آنٹی۔۔ اچھا خداحافظ۔۔۔”
فون بند کر کے حیدر پریشانی کے عالم میں ہی واپس گھر چلا گیا۔
حیدر کے ماں باپ تو تھے نہیں ۔ وہ چھٹی جماعت میں تھا جب اسکےوالدین کی گاڑی ایک دوسرے شہر میں تقریب سے واپسی پر موٹر وے کی دائیں سمت پر واقع گہری کھائی میں جا گری۔ ایک واحد بڑے بھائی جو حادثے کے وقت حیدر کے ساتھ فائنل پیپرز کی وجہ سےگھر پر تھے، حیدر سمیت اس جان لیوا حادثے سے بچ رہے۔
گھر کو انکی آیا اماں نے سنبھالا ہوا تھا جو نجانے کب سے اسی گھر کا فرد تھیں۔۔حیدر کی ماما بتایا کرتی تھیں کہ آیا اماں کا ایک ہی بیٹا تھا جس نے انہیں گھر سے نکال دیا۔ تب سے وہ یہیں کی ہو کر رہ گئیں. حیدر پیارسے آیا اماں کو آئی بی کہتا تھا۔ ماں باپ کے جانے کے بعد آئی بی نہ ہوتیں تو نجانے انکے گھر کا کیا ہوتا۔
آئی بی نے ایمانداری سے ان دونوں بھائیوں کو سگی اولاد کی طرح پالا۔ روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ اور بھائی جان بھی نسبتا سمجھدار تھے۔ حادثے کے وقت انکی عمر تقریبا سترہ سال تھی۔ کچھ انکے والد کے دوست اور انکے خاندانی وکیل نے بھی انکو کافی سہارا دیا ۔ والد کے کاروبار سے ہر مہینہ معقول رقم دونوں بھائیوں کو ٹرانسفر ہو جاتی تھی۔ حیدر پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا۔ آج وہ جس مقام پر تھا وہ اس نے اپنی محنت اور آئی بی کی محبت سے طے کیا تھا۔
حیدر کے بڑے بھائی جان البتہ
بیرون ملک چلے گئے ۔ وہ اس حادثے کو اپنی زندگی سے کبھی نہ نکال پائے اور ماضی کی تلخ یادوں سے دلبرداشتہ ہو کر ملک ہی چھوڑ گئے ۔ تاہم حیدر میں انکی جان تھی۔ روزانہ سکائپ پر گھنٹوں باتیں کرتے۔ حیدر نے جب انہیں مالا کے بارے میں بتایا تو بھائی جان کی خوشی دیدنی تھی۔
****
آئی بی ایک حقیقی ماں کی طرح حیدر کے رشتے کیلیے فکرمند تھیں۔ اور ایک رشتے والی کے توسط سے مالا کی امی سے ملنے کے بعد انہوں نے حیدر کو کسی نہ کسی طرح مالا کو دیکھنے کے لیے منا لیا تھا۔ مالا حیدر کو پہلی ملاقات میں پسند آگئی۔
اور آج جب مالا اسکی زندگی کا حصہ تھی تو آئی بی حیدر کے چہرے پر اطمینان دیکھ کر نہال ہو جایا کرتی تھیں۔ اور کیوں نہ ہوتیں۔ انکی بہو نے انکے بیٹے کی زندگی میں برسوں پرانے خلا کو جو پُر کر دیا تھا ۔ حیدر کئی سالوں کا تھکا مسافر تھا۔ جسے اب جا کر مالا کا کندھا میسر آیا۔
اب اسکی زندگی میں ساتھ دینے کیلیے ایک ایسا ہمسفر موجود تھا جس کے سامنے وہ بلا جھجک اپنے دل کی ہر تہہ اور اپنی روح کی ہر پرت کھول کر رکھ
سکتا تھا۔
***** ****
حیدر گھر واپس آیا تو آئی بی نے اسکے چہرے پر پریشانی کو صاف محسوس کر لیا۔ “سب ٹھیک تو ہے نا بیٹا۔ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہو”
آئی بی نے محبت سے پوچھا تو حیدر پریشانی کے عالم میں بولا “آئی بی مالا کی طبعیت خراب ہے۔ دعا کریں وہ جلدی سے ٹھیک ہو جائے۔ ”
آئی بی حیدر کی بات سن کر مسکرائیں اور دھیرے سے اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا “فکر نہ کرو بیٹا ۔۔انشاءاللہ سب ٹھیک ہو گا۔۔ میں شام کو ہی مالا کو دیکھنے جاؤں گی”
حیدر کی بے چینی دیکھنے لائق تھی۔
وہاں مالا آگ میں جل رہی تھی اور ادھر حیدر بے قرار تھا۔ ۔
*** **** *****
مالا کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ اسے تیز بخار چڑھ گیا۔ آنکھوں میں گہرے لال ڈورے واضح تھے۔ اور جسم ہلکا ہلکا کپکپا رہا تھا۔ اسکا موبائل پچھلے ایک گھنٹے سے بج رہا تھا۔ مالا کی نظر موبائل سکرین پر پڑی۔۔۔۔احمد کی 105 مسڈ کالز دیکھ کر اسے غصہ آگیا۔بار بار بیل بجنے کی وجہ سے اسکے سر میں درد ہونے لگا۔
اس نے منہ پھیر لیا۔۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ موبائل اٹھا کر دیوار پر دے مارے۔ تنگ آ کر اس نے موبائل اٹھایا اور سوئچ آف کر دیا۔
**** *** *** *** ***
شام کو آئی بی مالا کی طبعیت کا حال پوچھنے آئیں تو ساتھ ہی حیدر بھی چلا آیا۔ مالا کا فون سوئچ آف ہونے کیوجہ سے اس سے رہا نہیں گیا۔ اسکی بے چینی سب کو صاف محسوس ہو رہی تھی۔
آئی بی مالا کی والدہ کے ساتھ باہر لاؤنج میں بیٹھ کر باتوں میں مشغول ہوئیں تو حیدر انکی اجازت سے مالا کے کمرے میں ہی رک گیا۔
حیدر اپنی جگہ سے اٹھا اور
مالا بیڈ پر جہاں لیٹی تھی وہیں نیچے زمین پر بیٹھ گیا۔۔اس نے مالا کا ہاتھ پکڑا۔ اور انتہائی عقیدت کے ساتھ یوں اپنی آنکھوں سے لگا لیا جیسے کوئی مرید اپنے پیر ومرشد کی نگاہِ التفات چاہتا ہو۔ اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کے دو قطرے گر کر مالا کے ہاتھ تر کر گئے ۔ مالا کو جیسے کرنٹ لگا۔ وہ غنودگی کے عالم میں بھی حیدر کے عشق کی حدت کو محسوس کر سکتی تھی۔ جو بات حیدر کے دل نے دو آنسوؤں میں بیان کی۔ وہ مالا کی روح تک پہنچی۔ مالا نے حیدر کے ہاتھوں کو نقاہت کے باوجود مضبوطی سے پکڑ لیا۔
انسان جب اپنے اندر کسی طوفان سے نبرد آزما ہوتا ہے تو کسی نتیجے پر پہنچنا اس کی منزل تک پہنچنے والی پہلی سیڑھی ہے۔ اور اس پر قائم رہنا اسکی حتمی جیت۔ ۔
اگلی صبح مالا اٹھی تو اسکا بخار کافی کم تھا۔ اس کے اندر جاری جنگ بھی اب تھم چکی تھی۔اور اسکا فیصلہ اٹل تھا۔
مالا اٹھی۔ اس نے سب سے پہلے حیدر کو کال کی اور اسے بتایا کہ وہ اب قدرے بہتر محسوس کر رہی ہے۔ حیدر کو جیسے قرار سا آگیا۔ اسکے بعد اس نے اپنے فون میں احمد کا نمبر بلاک کر دیا۔ تاکہ وہ اسے مزید پریشان نہ کر سکے۔
وہ اٹھی اور معمول کے مطابق تیار ہو کر یونیورسٹی چلی گئی۔ اس کا فائنل سیمسٹر چل رہا تھا۔ اور فائنل پراجیکٹ کیلیے وہ کافی محنت کر رہی تھی۔
** ** **
یونیورسٹی پہنچے گھنٹہ بھر ہی ہوا ہو گا کہ احمد آن پہنچا ۔۔۔”اوہ مالا تم کہاں ہو۔ کتنی دفعہ تمہارا نمبر ٹرائی کیا۔ مگر تمہارا فون بند جا رہا تھا۔ تمہیں اندازہ بھی ہے کہ میرا کیا حال ہوا۔اتنے عرصے بعد میں اپنی مالا کو دیکھ رہا ہوں اور تم ہو کہ بات تک کرنا گوارہ نہیں کیا کل مجھ سے۔ میں تمہاری ناراضگی سمجھ سکتا ہوں مگر مجھے بولنے کا موقع تو دو”
احمد ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔
مالا چپ چاپ اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہی۔
“ارے مالا کچھ تو بولو۔ مجھے پتہ ہے کہ تم مجھ سے بہت ناراض ہو۔ مگر اب میں آگیا ہوں نا۔ میں تمہیں سب بتا دوں گا۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ میں نے تمہیں کتنا مس کیا ۔”
آہ درد کی اک لہر مالا کے دل سے اٹھی۔۔۔۔۔اور پھر درد پورے وجود میں سرایت کر گیا!! وہ مالا سے کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔ذکرِ وفا کر رہا تھا ۔۔۔
اور مالا کا انگ انگ پکار رہا تھا ۔۔۔
ایک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر۔^
کاش اس زبان دراز کا منہ نوچ لے کوئی
۔۔۔۔
مالا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ واقعی احمد کا منہ نوچ لیتی ۔ مگر اس نے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اسکی آنکھوں میں غصہ اور چہرے پر بے بسی صاف دیکھے جا سکتے تھے۔
“مالا تمہاری ناراضگی جائز ہے یار۔ مگر تم میری بات تو سنو۔ مجھے یقین ہے کہ تم میری بات سن کر مجھے ضرور معاف کر دو گی”
“اب کوئی فائدہ نہیں احمد”
مالا نے سپاٹ لہجے میں کہا ۔
“کیوں مالا۔۔میں آتو گیا ہوں نا. دیکھو تمہارا اپنا احمد تمہارے سامنے کھڑا ہے”
“میرا احمد.. ہونہہ” مالا بڑبڑائی
“مالا میں اس ایک سال کا تاوان ساری عمر بھرتا رہوں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ تمہیں کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ ”
“تاوان تو تمہیں بھرنا ہو گا احمد!!! مگر اب میرے پاس تمہارے لیے یہ زندگی بھر کا ساتھ نہیں ہے۔ لہذا پلیز یہاں سے چلے جاؤ”
“مالا غصہ تھوک دو نا۔۔۔ایسے نہ کہو۔۔۔دیکھو میں تمہاری ناراضگی کو بالکل قبول کرتا ہوں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ تم مان جاؤ گی۔ تم مالا ہو۔ میری مالا۔۔جس کے بغیر میں ادھورا اور جو میرے بغیر اتنی ہی ادھوری رہی ہو گی جتنا کہ میں”
“مالا نہیں ۔۔۔مسز حیدر… آپ کسی غلط انسان سے مخاطب ہیں مسٹر احمد۔۔۔جانے کس مالا کو ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔اچھا اچھا۔۔۔وہ پاگل سی بیوقوف مالا۔۔۔وہ تو کب کی مر چکی۔۔۔۔اب یہاں صرف ایک ہی مالا ہے۔جو مسز حیدر ہے۔ اور وہ آپ کو نہ جانتی ہے نہ جاننا چاہتی ہے”
“وہاٹ”
احمد ایسے اچھلا جیسے اسے کسی بچھو نے ڈنگ مار لیا ہو۔
“یہ تم کیا کہہ رہی ہو مالا”
“وہی جو تم نے سنا۔ اور اب پلیز میرا راستہ چھوڑو”
مالا نے کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔۔۔
اس کے چہرے پر اسکے ارادے کی مضبوطی تھی۔ وہ صرف حیدر کی تھی۔ اور اسے صرف حیدر کی ہی رہنا تھا۔۔۔
احمد گنگ کھڑا اسے دیکھتارہا۔۔۔
پھر تیز تیز قدموں سے لائبریری چل دیا۔ جہاں اسے کسی کے ملنے کی توقع تھی۔
لائبریری پہنچ کر وہ ایک مخصوص کونے کے طرف بڑھا اور اسکی توقع کے عین مطابق نور وہیں وجود تھی۔
احمد کی واپسی کی خبر ساری یونیورسٹی میں پہلے سے ہی پھیل چکی تھی۔
نور اسے دیکھ کر ٹھٹھکی۔ احمد نے بیٹھ کر بات کرنے کی اجازت چاہی تو نور نے اسے منع کر دیا ۔ اور بولی “یہاں نہیں ۔ کیفے میں چلو”
وہ دونوں اٹھ کر کیفے آ گئے۔ بیٹھتے ہی احمد نے پہلا سوال کیا “یہ مالا کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔ ”
” ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔ مگر تم پہلے یہ بتاؤ کہ کہاں تھے اتنے عرصے سے”
نور نے پوچھا۔
“وہ سب میں صرف مالا کو بتاؤں گا۔ مگر وہ تو بات کرنے کی بھی روادار نہیں مجھ سے”
احمد نے کہا تو نور ذرا تلخ لہجے میں بولی “احمد مالا کا نکاح ہو چکا ہے۔ تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تمہارے چھوڑ جانے کے بعد اس نے کیا کیا نہیں دیکھا اور سہا۔ زمانے سے لے کر تمہارے والدین تک نے اس پر انگلی اٹھائی۔ تم تو کتنی آسانی سے اسکی مشکلات میں اضافہ کر کے چلے گئے اور وہ سڑکوں اور تھانوں میں دھکے کھاتی رہی۔ کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا اس نے تمہیں۔ مگر اب جب وہ ہم سب کی مدد سے سنبھل کر آگے بڑھ گئی ہے تو تم اس کی مشکلات میں مزید اضافہ مت کرو۔ پلیز یہ ایک دوست
کی ریکویسٹ سمجھ لو۔ میں مالا کی ہی نہیں تمہاری بھی دوست ہوں۔ ”
نور کی بات سن کر احمد کے دل پر جیسے کسی نے گھونسا سا مار دیا ہو۔ وہ تو کیا سوچ رہا تھا اور کیا ہو گیا۔
“نور پلیز تم ایک دفعہ میری مالا سے بات کروا سکتی ہو کیا۔ اس سے کہو صرف ایک بار میری بات سن لے۔ پھر میرا وعدہ ہے کہ میں کبھی اسے دوبارہ تنگ نہیں کروں گا۔ ”
احمد کے چہرے پر التجا تھی۔ جسے نور رد نہ کر سکی
“ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی۔