اگلی صبح حیدر مالا کے دروازے پر اس کے یونیورسٹی جانے سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی موجود تھا۔ اسے دیکھ کر مالا کے چہرے پر رونق آ گئی۔ اور وہ جلدی سے تیار ہو کر گھر میں سب کو خدا حافظ کہہ کر حیدر کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔
اسے دیکھ کر حیدر کا چہرہ بھی کھل گیا۔ “اوہو آج کا دن تو تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے ۔ کیونکہ آج ایک لڑکی صرف آدھے گھنٹے میں تیار ہو کر آ گئی۔ یہ کیسے اور کیوں کر ممکن ہوا” حیدر نے کہا تو مالا بھی جواباً مسکراتے ہوئے بولی “بس جناب کے دیدار کی جلدی ہی اتنی تھی کہ فٹا فٹ تیار ہو کر آنا پڑا”.
حیدر مالا کا یہ ڈھکا چھپا سا اظہار سن کر نہال ہو گیا۔ محبوب کا چاہنا کسے اچھا نہیں لگتا اور محبوب اگر اظہار پر بھی قدرت رکھتا ہو تو دل محبوب کے قدموں میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔
مالا اور حیدر اب ایک ایسے رشتے میں بندھ چکے تھے جو صرف کاغذوں میں ہی نہیں ان کے دل پر بھی لکھا جا چکا تھا۔ اور وہ دونوں اسے روح کی گہرائی سے قبول کر چکے تھے۔
“ارے ارے یہ کہاں جا رہے ہیں ہم۔ یہ راستہ میری یونیورسٹی تو نہیں جاتا۔ ” مالا نے گاڑی مڑتے دیکھ کر حیدر سے پوچھا۔ جواباً حیدر مسکرا کر گنگنانے لگا “دل دیاں گلاں۔۔کراں گے نال نال بہہ کے۔۔ اکھ نال اکھ نوں ملا کے”
“کیا مطلب کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ دیکھیں مجھے آپ سے ایسی ویسی کسی حرکت کی بالکل امید نہیں ہے۔ مانا کہ ہم قانونی طور پر میاں بیوی ہیں مگر خبردار جو صحیح وقت آنے سے پہلے کچھ ایسا ویسا سوچا بھی تو” مالا باقاعدہ تنبیہی انداز میں بولی۔حیدر نے ایک قہقہہ لگایا “ایک تو تم لڑکیاں بھی نا!!! کیا کچھ سوچ لیتی ہو۔ میں نے کون سا گاڑی کسی سنسان راستے پر ڈال دی ہے۔ تمہیں ناشتہ کرانے لے جا رہا ہوں مگر میڈم نے تو کچھ اور ہی آئیڈیا دے دیا یے۔ ویسے آئیڈیا برا نہیں ۔ قابل عمل ہے” حیدر نے شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو مالا اسے گھور کر رہ گئی۔
حیدر نے گاڑی ایک پوش ریسٹورنٹ کے سامنے جا کر روک دی۔ وہ دونوں اندر داخل ہوئے اور ایک قدرے تنہا جگہ صوفے پر بیٹھ گئے۔
اس ریسٹورنٹ میں چاروں طرف دیوار کے پاس صوفے یوں لگے ہوئے تھے کہ دونوں صوفوں کا منہ ایک دوسرے سے الٹ تھا۔ صوفے پر موجود حضرات کوشش کر کے ایک دوسرے کی بات تو سن سکتے تھے مگر شکل نہیں دیکھ سکتے تھے۔
حیدر اور مالا جس صوفہ پر بیٹھے۔ اس کے الٹ صوفہ پر ایک اور جوڑا براجمان تھا۔ اس ریستوران میں زیادہ تر کپل ہی آتے تھے۔ لڑکی مسلسل بات کیے جا رہی تھی ۔تبھی لڑکے نے اسے ٹوکا “سویٹی تم سے کتنی دفعہ کہا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان نہ ہوا کرو۔ جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہو گا۔ تم ساری تیاری کر لینا پارٹی کی۔ مجھے تم پر اعتماد ہے۔ میں ماما سے بات کر لوں گا”
“او میری جان !!! تھینکو !!تھینکو سو مچ۔۔ آئی لو یو سو مچ.آئی رئیلی لو یو۔”
اردگرد سے بے خبر لڑکی اظہار میں مشغول تھی۔ مالا اور حیدر چپ چاپ بیٹھے تھے۔ اور جوڑے کی ساری باتیں انہیں بخوبی سنائی دے رییں تھیں۔ جب لڑکی نے آئی لو یو کہا تو مالا نے دیکھا کہ حیدر زیر لب مسکرا رہا تھا۔ تبھی حیدر کی نظریں مالا سے ملیں اور مالا نے جز بز ہو کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔
مالا اور حیدر ناشتہ کر کے وہاں سے اٹھے اور ریستوران سے نکل کر تھوڑی دور چلتے ہوئے وہیں ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ سامنے ہی ایک گراؤنڈ تھا۔ مالا نے بیٹھتے ہی کہا “میری خواہش ہے کہ ہمارے گھر کے پاس بھی ایک گراؤنڈ ہو جہاں ہم چہل قدمی کیلیے جایا کریں۔ ”
حیدر نے بغور مالا کو دیکھا اور سنجیدہ ہو کر بولا “لیکن آپ تو جانتی ہیں کہ میرے گھر کے پاس کوئی گراؤنڈ نہیں ہے۔”
” میں نے فرمائش نہیں خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ویسے بھی جب چار چھ سال بعد آپ کی توند نکل آنی ہے تو پھر اُسی گراؤنڈ کے چکر لگوا کر آپ کو سمارٹ کرتی نا۔”
مالا نے دبی دبی مسکان چہرے پر لا کر کہا تو دل ہی دل میں حیدر اس پر واری گیا۔
“چلیئے مالا اب چلتے ہیں۔۔۔کافی دیر ہو گئی یہاں بیٹھے باتیں کرتے ہوئے۔ ” حیدر نے کہا تو مالا اپنی ہی دھن میں بولی “کیا چلیئے چلیئے ۔۔آپ جناب لگا رکھی ہے۔ دیکھا تھا نا ریسٹورنٹ میں کس طرح وہ جوڑا ایک دوسرے کو جانو اور سویٹی کہہ کر بلا رہے تھے۔ اور ایک ہم ہیں کہ آپ اور تم کی ہی تکرار ختم نہیں ہوتی۔”
مالا کے اس اچانک ادا کیے گئے جملے نے حیدر کے لیے جیسے محبت نگر کی نئی راہ کھول دی ۔
وہ مسکرا کر بولا “ارے ہاں صحیح کہتی ہو۔۔یہ آپ جناب تو غیروں کیلیے ہوتا ہے اور تم تو اب میری ذات کا حصہ ہو۔ کہو تو تمہیں دل کی گہرائیوں سے ایک نام دینا چاہتا ہوں”
مالا تھوڑا شرمائی۔۔تھوڑا جھجکی اور پھر بولی “دے دیجیے۔۔۔۔دل و جان سے قبول ہے”
“ٹھیک ہے پھر چکو کیسا نام ہے؟ ”
“چکو؟ یہ کیسا نام ہے؟”
مالا نے اچھنبے سے پوچھا۔
“وہ اشتہار تھا نا کاکروچ مارنے والا۔۔۔اس میں چکو کاکروچ تھا. تو جتنی نازک سی تم ہو مجھے یقین ہے کہ اگر دو چوٹیاں بنا لو تو بالکل چکو لگو گی۔ ”
مالا پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ ہنس ہنس کر وہ دہری ہو گئی۔ دیر تک ہنستے رہنے سے اسکے گال لال ہو گئے اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ “اوہ مائی گاڈ حیدر تم کتنے کیوٹ ہو۔ ”
حیدر حیرانی سے اسے تکے گیا۔ کیوں کہ یہ نام اس نے دل و دماغ سے سوچ سمجھ کر مالا کو دیا تھا۔ پھر مالا کو اتنا ہنسی کیوں آئی۔ وہ سچ مچ میں دھان پان سی تھی۔۔اور اتنی ہی معصوم بھی جتنا اس اشتہار میں چکو۔
بہت دنوں بعد مالا اتنا کھل کر ہنسی تھی۔ اس کی آنکھوں میں جگنو صاف نظر آنے لگے تھے۔ محبت کا یہی تو کمال ہوا کرتا ہے کہ انگ انگ سے پھوٹی پڑتی ہے۔ اس کے رنگوں کی دھنک میں جذبوں کا ایک ایک رنگ اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ محبت میں ڈوبا وجود دور سے بھی اپنی خوشبو سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ اور دیکھنے والے ایک نگاہ میں سمجھ جاتے ہیں کہ محبت نے اپنا مسکن چن لیا ہے۔
حیدر نے مالا کو یونیورسٹی ڈراپ کیا اور واپسی پر اسے پک کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ مالا اسے خداحافظ کہہ کر جلدی سے اندر چلی گئی۔ پہلے ہی ایک کلاس چھوڑ چکی تھی۔ اب دوسری بھی مس کر دیتی تو یونیورسٹی آنا بےسود جاتا کہ آج دو ہی مضامین کی کلاسیں تھیں۔
نور اور سندس بے چینی سے اس کا انتظار کرتے ہوئے اپنے ساتھ ایک خالی سیٹ اسکے لیے رکھ کر بیٹھی ہوئی تھیں۔
“افوہ مالا کدھر تھیں تم! پتہ ہے چار دفعہ انکار کر چکی ہوں کسی کو تمہاری جگہ دینے سے۔ فون بھی نہیں اٹھا رہی تھی تم۔اتنی کالز کی ہیں تمہیں۔کاٹ کیوں رہی تھی فون” نور نے پوچھا تو مالا نے مسکرا کر کہا “حیدر کے ساتھ تھی”
اوہ ہو! واہ جی یہاں ہم انتظار میں ہلکان ہو رہے اور ادھر یہ میڈم ملاقاتِ محبوب میں مصروف ہیں”
نور نے لفظ محبوب پر دانت چبا کر زور دیا تو مالا کو ہنسی روکنا مشکل ہو گیا۔”
“ارے نہیں نہیں پاگل۔۔۔ایسا کچھ نہیں جو تم سمجھ رہی ہو۔ ”
“اچھا تو پھر کیسا ہے”
“وہ بعد میں بتاتی پہلے سن تو لو کہ سر کیا کہہ رہے ہیں.کلاس ختم ہونے دو پہلے”
“اچھا جی ی ی ی !! اب آپ خود عشق کا سبق پڑھ آنے کے بعد ہمیں یہ بورنگ سبق نہ پڑھانے کی کوشش کریں۔”
نور نے جی کو کھینچا ۔
مالا اسکی بات سن کر ایک بار پھر مسکرانے لگی۔
” واہ! بتیسی نہیں اندر جا رہی۔ یقین نہیں آ رہا کہ یہ وہی ہماری دوست ہے جو مہینہ پہلے تک زومبی بنی پھرتی تھی۔ اور آج تیاری تو دیکھو ۔۔۔چوڑیاں ایسے پہن کر آئی ہے جیسے شادی پر آئی ہو۔” نور نے سندس کو آنکھیں مٹکا مٹکا کر کہا تو مالا ایک بار پھر ہنس دی۔
بات بات پر یہ ہنسی!!!
مالا پر اس عشق نے خاص کرم کیا تھا۔ اسے یہ سوغات ایک جائز رشتے میں ودیعت ہوئی تھی۔اب اسکا محبوب ہی اسکا محرم بھی تھا اور اس کا عشق کسی نئی کلی کی طرح تازہ اور ان چھوا۔۔۔
یہ عشق بھی عجب احساس ہے۔ کسی کے چہرے پر ملن کا نور بن کر برس جائے اور کسی کی بےنور آنکھیں سالوں دید کو ترستی رہیں۔کلاس ختم ہوئی تو مالا نور اور سندس کے ساتھ باہر آ گئی ۔ ان دونوں نے بھی اسے چھیڑنے کا پورا پروگرام بنا رکھا تھا۔
” اچھا سنو! حیدر بھائی رومانٹک ہیں کہ نہیں؟ ”
سندس نے منہ پاس لا کر رازداری سے پوچھا ۔
“مجھے کیا پتہ ۔۔۔”
“تو کیا ہمیں پتہ ہو گا”
” بھئی نئے نکاح اور تین چار مہینوں کی ملاقات میں کیسے پتہ لگ سکتا ہے؟ ”
مالا نے صفائی سی دینا چاہی تو نور نے جھوٹ موٹ کا ناراض ہونے کی اداکاری کی “اچھا بابا نہ بتاؤ۔ ویسے بھی اب حیدر بھائی ہی اس کے خاص ہوتے ہیں ۔ ہم اسکے کیا لگتے ہیں؟. ”
“افوہ تم لوگ بھی نا”
مالا کے چہرے پر حیا کی لالی آ گئی
“اچھا بس یہ بتا دو کہ انہوں نے تمہیں آئی لو یو کہا کہ نہیں ”
سندس نے رازدارنہ استفسار کیا تو مالا نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“نہ کرو یار۔۔۔ جھوٹ بول رہی ہو۔ ایسا کیسے ہو سکتا کہ بندہ تمہیں اتنی بار مل چکا۔ دیکھ چکا اور تو اور نکاح تک ہو چکا مگر انہوں نے آئی لو یو تک نہیں کہا۔ یہ تو مجھے گڑ بڑ لگ رہی ہے”
نور نے ایسے انداز میں گردن گھما کر کہا کہ مالا بےاختیار بول اٹھی “بھئی محبت کا اظہار صرف آئی لو یو سے ہوتا ہے کیا۔ ہزار اور باتوں سے پیار جتایا جا سکتا۔ ”
نور اور سندس ہونٹ گول کر کے ایسے گردن ہلانے لگیں جیسے مالا نے کوئی فلسفیانہ بات کہی ہو۔
“ایسے کیا کر رہی ہو تم لوگ۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔ اب ضروری نہیں کہ آئی لو یو مالا سے ہی محبت کا اظہار ہو گا۔ آج حیدر نے میرے ساتھ اتنا وقت گزارا۔۔یہ بھی تو محبت ہی ہے نا۔”
“اچھا تو کیا کیا اس محبت بھرے وقت میں تم نے۔ سچ سچ بتا دو لڑکی ورنہ ہم نے حیدر بھائی کو فون کر کے پوچھ لینا کہ کہیں کہنے کے بجائے سیدھا کرنے پر یقین تو نہیں رکھتے”
نور نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر بھنوئیں اچکا کر پوچھنے کی اداکاری کی تو مالا گڑبڑا گئی “بدتمیز کہیں کی۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔پرے ہٹو بے شرم نہ ہو تو” “ہاں ہاں ہم تو اب کہہ کر ہی بےشرم ہیں اور یہاں لوگ کیا کیا کر کے بھی صاف بچ رہے ہیں۔ ” دونوں کسی طرح بھی ہار ماننے کو تیار نہ تھیں۔ مجبوراً مالا کو پوری روداد سنا کر انہیں یقین دلانا پڑا کہ اس نے حیدر کے ساتھ کچھ “ایسا ویسا” نہیں کیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد سندس کا ڈرائیور آ گیا اور وہ چلی گئی۔نور کو بھی اسائنمنٹ کے لیے لائبریری جانا تھا۔ اس نے مالا کو ڈیپارٹمنٹ میں ہی چھوڑا اور خود دوسرے بلاک میں لائبریری چلی گئی۔ مالا کچھ دیر وہیں بیٹھی حیدر کا انتظار کرتی رہی۔ پھر ٹائم پاس کرنے کیلیے موبائل پر گیم لگا لی۔
کافی دیر مالا گیم کھیلتی رہی۔ اس کی نظریں گیم پر جمی ہوئی تھیں۔ تب اچانک ہی اس کے پاس آواز آئی
“ارے تم یہ بیٹھی ہو۔ میں تمہیں کب سے ڈھونڈ رہا تھا”
مالا نے مسکراتے ہوئے گیم کی نیکسٹ موو کی اور نظر اٹھا کر بولی “کب سے انتظار کر رہی ہوں کہ۔۔۔۔۔۔”
وہ حیدر نہیں احمد تھا۔۔۔۔
مالا کو دو لمحے کیلیے کچھ سمجھ نہ آیا۔ وہ اچانک بدک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
“تم”
“ہاں میں ”
احمد نے ایسے جواب دیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔جیسے وہ سال بھر پہلے کے کسی دن کی طرح یونیورسٹی کلاس لینے کے بعد اسے ڈھونڈتا ہوا یہاں چلا آیا ہو۔
وہ اچانک ہی مالا کی زندگی سے غائب ہو گیا تھا۔ اور اب اچانک ہی اس کے سامنے کھڑا تھا۔ مالا کے اندر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
غصے کا۔۔۔نفرت کا۔۔۔شکایت کا۔۔۔محبت کا۔۔۔۔اور بے بسی کا۔۔۔۔اس نے آج تک خود کو اتنا بے بس نہیں محسوس کیا تھا۔ احمد کے چلے جانے پر بھی وہ اتنا مجبور نہیں ہوئی تھی جتنا کربناک زندگی کے یہ چند لمحات گزارنا لگ رہا تھا۔ ایک ایک سیکنڈ مالا پر ایک پہاڑ سا ٹوٹ رہا تھا۔
اس کے الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔
وہ ہکی بکی، گنگ احمد کو دیکھے گئی۔