دروازے پر بیل ہوئی تو مالا کی امی نے ہی دروازہ کھولا۔ باہر پولیس کھڑی دیکھ کر تو وہ گرتے گرتے بچیں۔
“بی بی ہمیں آپ کی بیٹی سے کچھ تفتیش کرنی ہے”
مالا کی امی کی تو ایسی حالت ہوئی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔ جوان بیٹی اور گھر میں پولیس آ جائے تو پڑوسی تو شک کی نظر سے دیکھتے ہی ہیں ساتھ کئی سچی جھوٹی کہانیاں بھی منسوب ہوتے دیر نہیں لگتی۔
“جی بہتر آپ لوگ اندر آ جائیں۔ یوں باہر کھڑے ہونا مناسب نہیں لگتا۔ ویسے بھی آپ لوگ وردی میں آئے ہیں تو پڑوسی معنی خیز نظروں سے جھانک رہے ہیں۔ ”
پولیس والے اندر آ گئے۔ وہ لوگ تعداد میں چار تھے۔ ایک غالبا تفتیشی آفیسر تھا اور باقی تین اسکے ساتھی تھے ۔
بیٹھتے ہی آفیسر نے کہا ” بی بی اپنی بیٹی کو جلدی سے بلا لیں ہمیں اس سے کچھ سوالات پوچھنے ہیں۔”
“جی پوچھ لیجیے مگر میں اپنی بیٹی کے ساتھ ہی رہوں گی”
مالا کی امی نے کہا تو پولیس والے نے جواب دیا “ہمیں یا ہماری تفتیش کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ساتھ بیٹھیں یا نہیں ۔ مگر اپنی بیٹی کو ذرا جلدی بلا لیں ”
مالا کی امی مالا کو لے کر اندر آئیں۔ سلام کے بعد مالا سامنے ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔
“جی فرمائیے؟ ”
مالا نے کہا تو پولیس والے نے جواب دیا “دیکھیں مالا جی آپ کو پتہ ہے کہ ہم سب احمد کی گمشدگی کو لے کر پوچھ تاچھ کر رہے ہیں۔ لہذا ہمیں سب سچ بتائیے گا۔ اگر آپ کی کسی بات کا بعد میں پتہ چلا تو شاید یہ آپ کیلیے بھی اچھا نہ ہو۔ ”
اس دھمکی بھری شروعات کے ساتھ مالا نے خشمگیں نظروں سے پولیس آفیسر کو دیکھا۔
مگر ایک لمحے کے توقف کے بعد پولیس والا دوبارہ بولنا شروع ہوا
“آپ احمد کی دوست ہیں”
“جی”
“میرا مطلب خاص دوست؟ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کا کہنا ہے کہ آپ دونوں کا افیر چل رہا تھا۔ ”
“افیئر کہہ کر ہمارے رشتے کی توہین مت کیجیے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو پوری ایمانداری سے چاہتے ہیں۔ ”
“ہمم۔۔کیا یہ سچ ہے کہ احمد کی کئی لوگوں سے دشمنی تھی؟ ”
“جی. مگر اسے دشمنی کہنا مناسب نہیں ہو گا۔ ہاں بہت سے لوگوں کو اس سے اختلاف تھا مگر براہ راست دشمنی کسی سے نہیں تھی”
“کیا آپ اور احمد کے بیچ میں اکثر جھگڑا ہوتا تھا۔ آپ احمد کی تقاریر کو لے کر اس سے جھگڑتی تھیں کہ وہ یہ سب چھوڑ دے۔ ”
” افف یہ سب آپ کو کس نے کہا؟ یہ انتہائی پرسنل سوالات ہیں۔ ”
” تو بی بی اپنے پرسنل جھگڑے یونیورسٹی گراؤنڈز میں نہ لڑا کریں تاکہ باقی کے اسٹوڈنٹس ہمیں نہ بتا سکیں۔ ” آفیسر نے طنزیہ انداز میں کہا تو مالا دانت پیس کر رہ گئی۔
“کہیں احمد ایجنٹ تو نہیں تھا؟ ”
پولیس آفیسر نے کہا تو مالا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اور پھر وہ تقریبا چلا کر بولی ” دماغ درست ہے آپ لوگوں کا؟ ایجنٹ کا مطلب پتہ ہے آپ کو؟ یہ ہے آپ لوگوں کی تفتیش۔ احمد ایک بہت ہونہار اور قابل اسٹوڈنٹ تھا۔ ہاں اسکے نظریات سے کچھ لوگوں کو اختلاف ضرور تھا مگر آپ کیسے اتنی بے حسی کا مظاہرہ کر سکتے؟ ایک محب وطن نوجوان پر ایجنٹ ہونے کا الزام دھر دیا۔ آپ لوگوں سے کچھ بن نہیں پڑتا تو الٹا مدعی پر ہی الزام دھر دیتے ہیں۔ خبردار جو میرے احمد کو ایجنٹ کہا۔ منہ نوچ لوں گی آپ لوگوں کا۔ احمد ایجنٹ نہیں ہے۔ سن رہے آپ لوگ احمد ایجنٹ نہیں ہے ۔ ”
مالا ہسٹریائی انداز میں تقریبا چیختے ہوئے پولیس والے کا گریبان پکڑنے آگے بڑھی تو اسکی والدہ نے اسے پکڑ لیا۔ مالا نیم جان سی ہو کر انکی بانہوں میں جھول گئی۔
“اچھا بی بی ابھی آپ کی بیٹی کی حالت ایسی نہیں کہ وہ مزید بیان دے سکے۔ ہم پھر حاضر ہوں گے ”
یہ کہہ کر پولیس والے دروازے کی طرف بڑھ گئے اور مالا کی امی مالا کا چہرہ تھپتھپانے لگیں کہ اسے ہوش آ جائے۔
** ** **
پولیس کی تفتیش کا رخ دیکھتے ہوئے مالا اور اسکے کلاس فیلوز نے احمد کی رہائی کیلیے کمپین چلانے کا ارادہ کر لیا۔
سب نے سوشل میڈیا پر احمد کی رہائی کیلیے اسٹیٹس ڈالے۔ پوسٹس لگائیں اور خوب خوب احمد کی تصاویر شیئر کیں۔
لوگوں نے احمد کیساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ کسی نے اسکی شعلہ بیانی کو اسکا قصور ٹھہرایا تو کسی نے اسکی جوانی کی دہائی دی۔ کسی نے اسکی ماں کیساتھ اس غم کی گھڑی میں ساتھ دینے کا اسٹیٹس ڈالا تو کسی نے اسکی گمشدگی کو مشکوک قرار دے کر الزام ریاستی اداروں پر ڈالا۔
تبھی کسی نے کمنٹ میں انہیں احمد کی رہائی کیلیے مارچ کرنے کا مشورہ دیا۔
مالا کی دیوانگی سب کو صاف محسوس ہو رہی تھی۔ احمد کی رہائی کیلیے اسکی کوششیں نہ تو احمد کے والدین سے پوشیدہ تھیں نہ خود مالا کے والدین سے۔ مالا کی امی مالا کی یہ حالت دیکھ کر مصلحتاً خاموش تھیں۔ وہ ابھی اپنی بیٹی سے کچھ نہیں کہنا چاہتی تھیں۔ لیکن دل ہی دل میں شدید پریشان تھیں۔ گو وہ بھی احمد کی رہائی کیلیے دعاگو تھیں مگر انکا دل کسی انجانے خطرے سے ڈول رہا تھا۔
اسلام علیکم ناظرین اپنے پروگرام “سچی بات زید کے ساتھ” میں حاضر ہوں میں آپکا میزبان زید خان ۔۔۔ہر ہفتہ کی طرح اس بار بھی ہم لے کر آئے ہیں کچھ خاص۔ جی ہاں ناظرین آپ سب نے یونیورسٹی نوجوان احمد کی گمشدگی کے بارے میں سن رکھا ہو گا۔ آج ہم بات کریں گے احمد کے دوستوں اور والدین سے۔ اور ہمارے ساتھ شو میں شریک ہیں ۔۔۔ احمد کے والد رشید ، انکی دوست مایا اور زبیر۔
جی تو بات کرتے ہیں احمد کے والد سے ۔۔۔ “رشید صاحب ہم سب دکھ کی اس گھڑی میں آپ کے ساتھ ہیں۔ہمارے ناظرین احمد کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ احمد کیسا بیٹا تھا؟ میرا مطلب ہے عام زندگی اور رشتوں میں احمد کیسا انسان تھا؟ ”
ٹی وی اینکر نے سوال کیا تو احمد کے والد نے جواب دیا”
احمد میرا انتہائی لائق اور ہونہار بیٹا تھا۔ احمدکے تمام رشتہ دار اور دوست میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ بہت ہی کم لوگ اس جیسے انسان دوست ہوتے ہیں۔ انتہائی خوش اخلاق اور ملنسار تھا میرا بیٹا۔ میرے بیٹے کی کسی سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ بس میری حکومت سے بھی یہی گزارش ہے کہ میرے بیٹے کی بازیابی کیلیے ہر ممکن کوشش کریں ” ۔
اینکر مالا کی طرف متوجہ ہوا ۔
“مالا آپ احمد کی دوست ہیں۔ آپ ہمیں احمد کے بارے میں بتائیں۔جو بات کبھی کبھی گھر والوں کو بھی نہیں معلوم ہوتی وہ ایک اچھا دوست جانتا ہے۔ ”
مالا دو لمحے کو رکی جیسے اس نے احمد کو یاد کیا ۔ اس کے دل سے بے اختیار صدا نکلی “کہاں ہو احمد؟ میں تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں۔ ”
پھر گویا ہوئی
“احمد کے بارے میں کچھ بھی کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا۔ احمد کی خوبیاں چند الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ مگر اتنا کہنا چاہوں گی کہ میں انتہائی خوش قسمت انسان ہوں کہ مجھے احمد کا ساتھ ملا۔ اس جیسا پیارا دوست ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ یونیورسٹی کے گارڈ سے لے کر ڈیپارٹمنٹ کے ڈین تک سب ہی احمد کے معترف ہیں۔ ہر کوئی اسے کسی نہ کسی بات پر پسند کرتا ہے ۔ بس ہم سب یہی چاہتے ہیں کہ احمد جہاں بھی ہے صحیح سلامت ہم تک واپس آ جائے۔ ”
مالا نے بات ختم کی تو اسکی آنکھوں میں دو آنسو جگمگا رہے تھے۔ اینکر اب تیسرے مہمان اور انکے دوست زبیر کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ زبیر سے بھی احمد کے بارے میں رائے لینا چاہتا تھا۔
ٹی وی چینل پر لائیو پروگرام جاری تھا۔ تبھی مالا کے موبائل پر ایک میسج موصول ہوا۔
میسج پڑھ کر مالا کا رنگ پیلا پڑ گیا
مالا تقریبا بھاگتی ہوئی پولیس اسٹیشن پہنچی۔ محرر نے اسے اندر جانے سے روک دیا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں۔ مالا نے باہر ہی شور مچانا شروع کردیا کہ اسے ہر حال میں اندر جانے دیا جائے۔ اسے پولیس آفیسر سے اہم بات کرنی ہے۔ مگر محرر نےاس کی کسی بات پر کان نہیں دھرا۔ ہمارے پولیس سسٹم سے کون واقف نہیں ۔ پہنچنے والے ایک پرچی پر ڈی ایس پی تک پہنچ جاتے ہیں اور رلنے والے عام لوگ ایک تھانیدار سے ملاقات کیلیے کئی کئی گھنٹے اور بعض اوقات کئی دن تھانے کے دھکے کھاتے ہیں۔ تین گھنٹے کے کٹھن انتظار کے بعد مالا کو اندر طلب کیا گیا تو کیا دیکھتی ہے کہ آفیسر صاحب اندر دوست کیساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ چائے پانی کے اس دور میں کسی سائل کی دخل اندازی انکی طبعیت پر شدید گراں تھی۔
خیر مالا انکے جاتے ہوئے دوست پر ایک خشمگیں نگاہ ڈال کر واپس ایس پی صاحب کی طرف متوجہ ہوئی۔ “مجھے آپ سے احمد کے سلسلے میں بات کرنی ہے” مالا نے کہا تو ایس پی نے چونک کر جواب دیا “کون احمد؟ وہی جسے یونیورسٹی سے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ؟”
“جی وہی احمد جس کی تفتیش کا صحیح رخ تک آپ لوگوں سے متعین نہیں ہو رہا۔ ”
مالا نے کاٹ دار لہجے میں کہا تو ایس پی صاحب نے
جواب دیا “بی بی تفتیش کا رخ آپ مت بتائیں۔ وہ پولیس کا کام ہے۔ آپ جو بات کرنے آئی ہیں وہ بات کریں ۔ ”
مالا نے جوابا اپنا موبائل آگے کر دیا۔ “یہ کیا ہے؟ ”
ایس پی نے موبائل ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا تو مالا نے کہا “اس میں میسج ہے۔ وہ پڑھیں”
ایس پی نے موبائل سامنے کیا اور باآواز بلند میسج پڑھنا شروع کیا
“جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو ”
شعر پڑھ کر ایس پی صاحب نے کچھ نہ سمجھ آنے والے انداز میں مالا کی طرف دیکھا تو مالا نے کہا “یہ شعر دراصل ہماری یونیورسٹی کے تقریری مقابلے کیلیے بطور عنوان چنا گیا تھا اور احمد کی اس پر تقریر کے بعد کچھ لڑکوں نے اسے مارا بھی تھا۔ ہو نہ ہو اس میسج سے ہمیں احمد کا پتہ چل سکتا ہے۔ کسی نے انجانے نمبر سے مجھے یہ شعر میسج کیا ہے۔ اس کی کڑی احمد کی گمشدگی سے ضرور ملتی ہے”
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو
جی ہاں جناب والا! اس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو۔
میرے معزز ڈین، قابل احترام اساتذہ اور عزیز ساتھیو اسلام علیکم!
آپ سب یقینا میرے اس موضوع سے چونکے ہوں گے۔ مگر کیا آپ نے کبھی اس کی گہرائی میں جا کر سوچا ہے؟ کہ کس کھیت کو جلانا ہے؟ یہ کون سا کھیت ہے؟ جس نے ہمارے دہقانوں کی روزی پر ڈاکا ڈال رکھا ہے۔
جناب والا یہ کھیت ہم ہیں… یہ ملک ہمارا کھیت ہے۔ یہ مذیب ہمارا کھیت ہے۔ یہ ضمیر ہمارا کھیت ہے۔ ہر وہ شے جس سے ہم اس دنیا کو کچھ دے سکتے ہیں وہ ہمارا کھیت ہے۔
مگر ذرا ٹھہریے اور سوچیے کہ ہم انفرادی سطح پر کیا کر رہے ہیں۔؟ ہمارے اجتماعی رویے کیسے ہیں؟ یہ سیاستدان یہ ملا یہ گورنمنٹ آفیسر سے لے کر اونچے اونچے عہدوں تک بیٹھے لوگ ۔۔یہ کیا دے رہے ہیں ہمیں؟ ہم انفرادی اور مجموعی طور پر اس معاشرے اور دنیا کو کیا دے رہے ہیں؟. میں کہتا ہوں کہ ان نام نہاد سیاستدانوں کو جلا دو
جنہوں نے بدحالی کے علاوہ اس ملک کو کچھ نہیں دیا۔۔۔میں کہتا ہوں ان نام نہاد مذہبی تشدد پسندوں کو جلا دو جنہوں نے مذہب کے نام پر مذبح خانے کھول رکھے ہیں۔ ارے ان بے ضمیر لوگوں کو جلا دو جن کی جھولی سے اس دنیا کو صرف خسارہ ہی ملا ہے۔ ہمیں اٹھ کھڑا ہونا ہو گا۔ اس سسٹم سے نجات حاصل کرنی ہو گی۔ ہم میں سے ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہے یہ۔ کیا آپ نہیں جانتے علامہ اقبال نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا تھا “ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ”
تو اٹھو اور بدلو اپنے حالات کیونکہ جو قوم اپنی حالت خود نہیں بدلتی اسکی حالت خدا بھی نہیں بدلتا۔ ”
احمد کی آواز پورے ہال میں گونج رہی تھی۔ اسکا جوش ،اس کا جذبہ ایک ایک لفظ سے عیاں تھا ۔ سب لوگ سانس روکے اس کے لب و لہجے کے اتار چڑھاؤ میں مگن تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ حسب معمول احمد پہلے انعام کا حقدار ٹھہرا۔
ہال سے باہر نکلے تو چند نوجوان کھڑے تھے ۔ احمد کو دیکھتے ہی ایک نے کہا ” وہ رہا گستاخ۔۔۔یہ مولویوں کے خلاف بات کرتا ہے۔ یہ ہمارے مذہب کو گندا کرنا چاہتا ہے۔”
تبھی ایک نوجوان آگے بڑھا اور بولا
“آپ کا نام احمد ہے؟ ”
“جی. فرمائیے”
احمد نے کہا تو اس آدمی کا چہرہ بالکل سپاٹ ہو گیا۔
“کیا آپ کو نمازِ جنازہ، نکاح کی دعا، میت کی معغفرت کیلیے پڑھنے والی دعائیں، یا اذان یا چھ کلمے ہی آتے ہیں؟ تو سنا دیجیے”
“واٹ ربش؟ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ لوگ۔ کس نے حق دیا آپ لوگوں کو دوسروں کے مذہب پر انگلی یا سوال اٹھانے کا؟ ”
احمد نے ذرا کرختگی سے جواب دیا تو اس آدمی نے ابرو کا ایک اشارہ کیا اور وہ تمام نوجوان احمد پر ٹوٹ پڑے “اسی نے جس نے تجھے انگلی اٹھانے کا حق دیا ہے۔ خنزیر کی اولاد ۔ تجھےتو آج ایسا سبق سکھائیں گے کہ یاد رکھے گا”
احمد خود کو بچاتا ہی رہ گیا مگر ان لوگوں نے مدد آنے تک اسکی اچھی خاصی درگت بنا ڈالی۔پورا ایک ماہ احمد نے بستر پر گزارا۔ مالا کے لاکھ سمجھانے پر بھی اس نے صاف منع کر دیا کہ وہ چپ نہیں رہ سکتا۔ اسکا خمیر ہی لڑتے رہنے کیلیے اٹھایا گیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک دن وہ خود اٹھا لیا جائے گا۔
“مالا بات کر رہی ہیں؟ ”
“جی ہاں۔ میں مالا بات کر رہی ہوں۔ آپ کون؟ ”
مالا نے انجانی کال ریسیو کی تو فون پر نسوانی آواز ابھری۔
“آپ میری فکر چھوڑئیے ۔ بس اس مالا کو بھول جائیے جو آپ کی الماری کے دوسرے دراز میں پڑی ہے”
“کون ہیں آپ؟ آپ کیسے جانتی ہیں اس مالا کے بارے میں؟ احمد کہاں ہے؟ ہیلو ہیلو؟ ”
مگر دوسری طرف سے فون منقطع ہو چکا تھا۔
مالا کچھ نہ سمجھ آنے والے انداز میں دو منٹ موبائل فون کی سکرین دیکھتی رہی۔ پھر اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ۔۔۔
وہ اٹھی اور بھاگتی ہوئی الماری تک پہنچی۔ دراز کھولا۔۔مالا نکالی اور اسے اپنے سینے سے لگا کر رونے لگی۔
اس کے دل سے آہ نکلی “آ جاؤ احمد۔ تم ہو کہاں؟ مالا کب سے تمہاری راہ دیکھ رہی ہے۔ ”
مگر شاید احمد کے آس پاس کی ہوا مالا کا پیغام اس تک پہنچنے نہیں دے رہی تھی۔
سسکیاں وہیں ہوا میں تحلیل ہو گئیں۔
* * * * * *
آہستہ آہستہ میڈیا نے بھی احمد کا ذکر کم کر دیا۔ ان کے پاس آئے روز بریکنگ نیوز تھیں ۔ کب تک احمد کا رونا روتے؟ پولیس نے بھی احمد کو نامعلوم افراد کے ہاتھوں لاپتہ قرار دے دیا۔ معاملہ دبتا گیا۔ مگر ان چھ مہینوں میں مالا ہزاروں دفعہ مری اور ہزار بار جی۔
حوصلہ ٹوٹ جاتا تو ہر بار احمد کی واپسی کی امید اسے واپس جگاتی مگر اسکا انتظار بھی اب بوجھل ہونے لگا تھا۔
جہاں اسکی پلکوں پر امید تھی وہیں اسکی دھڑکن میں شکایت تھی۔ احمد کیسے اتنا خود غرض ہو سکتا تھا کہ اسے یوں اکیلا چھوڑ جائے؟ نہیں نہیں ۔ کہیں نہ کہیں احمد بھی اس سے ملنے کو اتنا ہی تڑپ رہا ہو گا۔ نہیں اگر اسے میرا ذرا بھی خیال ہوتا تو وہ باز آ جاتا ۔ کتنی دفعہ سمجھایا تھا کہ مجھ سے دور مت جانا۔ مگر وہ باز نہیں آیا۔ ارے پگلی وہ تو تمہارے لیے جیتا تھا۔ تمہاری ہر بات اسے دل و جاں سے قبول تھی۔ تم اس سے سانسیں مانگتی تھی اور وہ تم پر جان فدا کیے بیٹھا تھا۔
انہی متضاد سوچوں میں گھری مالا کبھی ادھر ڈولتی۔
“مالا بیٹا تم سے کچھ بات کرنی ہے”
مالا کی امی نے کمرے میں آ کر کہا تو مالا کا دل دھڑک گیا۔
“دیکھو بیٹا یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے؟ حلیہ صحیح رکھا کرو اپنا ” مالا کی امی نے کہا تو مالا بس اپنی جھولتی لٹ کان کے پیچھے اڑا کر رہ گئی
اس کی امی نے ملائمت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولیں
“مجھے پتہ ہے میری بیٹی بہت سمجھدار ہے۔ زندگی اسی کو کہتے ہیں کہ نجانے کب کیا ہو جائے۔ میری پیاری بیٹی بحثیت انسان اور مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم زندگی کے ہر فیصلے کو اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کریں۔ میں آپ کے فیصلے کے بارے میں زیادہ تو نہیں جانتی۔ یقینا میری بیٹی نے سوچ سمجھ کر ہی انتخاب کیا ہو گا مگر زندگی کو شاید آپکا یہ فیصلہ منظور نہیں تھا۔ بیٹا زندگی جانے والوں کے سہارے جینے کا نام نہیں ۔ زندگی تو آنے والے امتحانوں سے نبرد آزما ہونے کا نام ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی پہلے جیسی زندہ دل ہو جائے۔اور پھرسے مسکرائے۔ اسی لیے میں نے اور آپ کے ابو نے آپکی منگنی کا فیصلہ کیا ہے۔ شادی ایک سال بعد آپکی ڈگری مکمل ہونے پر ہو گی. مجھے امید ہے کہ آپ ہمارے اس فیصلے کو رد نہیں کریں گی۔ ”
مالا سے ایک لفظ بھی نہ کہا گیا۔ وہ چپ چاپ اپنی والدہ کو دیکھتی رہی۔ اسکی والدہ نے اسکی پیشانی پر بوسہ لیا اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔ مالا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی بہنے لگی۔
افف یہ زندگی نے اسے کس مقام پر لا کھڑا کیا تھا ۔ وہ تو چاہ کر بھی یہ دہائی نہیں دے پا رہی تھی کہ احمد کی غیر موجودگی میں بھی وہ صرف احمد کی ہے۔ احمد سے کوئی دنیاوی رشتہ نہیں بھی تھا تب بھی وہ محبت میں اسکی بیوہ بن کر رہ سکتی ہے۔ کسی اور کی سہاگن بن کر نہیں ۔ وہ تو ساری عمر احمد کا انتظار کر سکتی ہے ۔پھر یہ دنیا کیوں اسے اتنی جلدی سب بھول جانے پر آمادہ کر رہی ہے ۔ مگر وہ اپنے والدین کو کس بنیاد پر دکھی کرے؟ احمد تو ایسے غائب تھا کہ جیسے کبھی اسکا وجود ہی نہ ہو۔ کہیں سے کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی۔ بس کوئی معجزہ ہی اسے واپس مالا کے سامنے لا کھڑا کر سکتا تھا۔
مالا نے ایسی بے بسی ،ایسی لاچارگی پوری زندگی میں کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ دل کٹ رہا تھا اور دماغ میں ایک جنگ جاری تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ بس رہ رہ کر ایک آنسو ہی تھے جو اسکی تنہائی کا ساتھی تھے ۔ اگر احمد آج دیکھ لیتا کہ مالا کس درد اور کرب میں ہے تو یقینا اسے اپنے اندر چھپا لیتا۔ مگر مالا کے نصیب میں صرف تکیہ تھا جسے سینے سے لگائے وہ سارا دن یوں ہی اوندھی پڑی روتی رہی ۔