اسے احمد سے اس جواب کی بالکل توقع نہیں تھی۔احمد نے اس کے اس ردعمل کو نظر انداز کر کے پوچھا
“خیر ہم بات کی طرف آتے ہیں۔ مجھے تم سے حیدر کے متعلق جاننا ہے۔ وہ کس قسم کی طبعیت کا آدمی تھا؟ اس کے دوست اور حلقہ احباب کیسا تھا۔ وہ کن چیزوں کو شدید پسند یا ناپسند کرتا تھا اور کیوں۔ اسکے مشاغل کیا تھے وغیرہ وغیرہ۔۔۔”
مالا دو لمحے کو چپ رہی اور پھر بولی ” شاید تم اسے ایک پاگل عورت کی محبت سمجھو یا ایک بیوی کی جدائی کا غم مگر حقیقت نہیں بدلے گی۔ حیدر جیسا نفیس اور مکمل انسان بہت کم عورتوں کا نصیب ہوتا ہے۔ ہاں اسکا بچپن محرومیوں میں گزرا لیکن ان محرومیوں کا ازالہ اس نے اپنے گرد افراد کی ہر خواہش کا مان رکھ کر کیا۔ جو زندگی نے خود اسے نہیں دیا وہ اس نے دوسروں میں بانٹ کر زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ وہ فاتح تھا۔ دلوں کو فتح کرنے والا۔ اس سے جڑے کسی انسان کو اس سے شکایت ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کے دوست بہت ہی کم تھے۔ وہ صرف لائق اور پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت پسند کرتا تھا۔ اس کا پسندیدہ مشغلہ کتابیں پڑھنا تھا۔ وہ ایک انتہائی فرض شناس ڈاکٹر تھا اور اس کے علاوہ ایک محب وطن انسان۔ اپنے وطن کے لیے وہ جان بھی خوشی خوشی قربان کر دینے والوں میں سے تھا۔ یاد ہے جب راولپنڈی میں دہشتگردی کا واقعہ ہوا تھا۔ تب وہ وہیں تھا اور اس نے اپنا خون دیا تھا۔۔۔ آرمی کے ان جوانوں کو جو اس حملے میں زخمی ہو گئے تھے۔وہ اپنے وطن سے۔۔۔؟”
“ایک منٹ۔۔ابھی تم نے کہا کہ اس نے خون دیا تھا۔ آرمی نوجوانوں کو؟”
احمد نے مالا کو ٹوکا تو مالا جو اپنی ہی دھن میں ڈوبی بولے جا رہی تھی رک کر بولی “ہاں وہ اکثر نہ صرف خون دیتا تھا بلکہ بلڈ ڈونیشن کی ترغیب بھی دیا کرتا تھا۔ اسکے علاوہ وہ باقاعدہ ایک مہم بھی چلا رہا تھا تاکہ لوگوں کو خون دینے کے بارے میں آگاہی دے سکے”
احمد مالا کی بات سن کر گہری سوچ میں پڑ گیا۔
“کیا تم بتا سکتی ہو کہ وہ خون کہاں جمع کرواتا تھا۔ میرا مطلب کس بلڈ بنک میں؟ ”
“وہ کسی ایک مخصوص جگہ تو خون نہیں دیا کرتا تھا۔ ہاں جس جگہ ضرورت پڑتی وہاں وہ اپنا آپ پیش کر دینے سے بالکل نہیں گھبراتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے محض تین مہینے کے عرصے میں چار بار خون عطیہ کر دیا۔ میں اس سے کافی ناراض بھی ہوئی۔ مگر اس نے مجھے منا لیا اور وعدہ کیا کہ وہ سال میں صرف دو بار خون دیا کرے گا۔”
مالا کے انکشافات پر احمد اپنے ذہن میں تانے بانے ملانے لگا۔
پھر احمد نے اس سے مزید چند باتیں پوچھیں اور اس سے اجازت لے کر واپس چلا گیا۔
“سر مالا سے بات کر کے ایک بات پتہ چلی ہے۔ اور وہ یہ کہ حیدر خون کا عطیہ دیا کرتا تھا۔ ”
“کہیں تم نے اسے کسی بات کے بارے میں بتایا تو نہیں۔؟”
سوال آنے پر احمد نے بلاججھک کہا “نو سر۔ بالکل نہیں۔ اس نے باتوں باتوں میں ہی بتایا کہ حیدر محب وطن اور سماج کی خدمت پر یقین رکھنے والا انسان تھا”
“مگر ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ حیدر اسے کامیابی سے دھوکہ دے رہا ہو۔ ایک سیدھی سادی گھریلو عورت سے بات چھپانا بھلا کیا مشکل ہو گا۔؟”
” مگر سر ہم ایک بات تو جان گئے ہیں کہ اس جملے کا تعلق حیدر سے ہونے کے امکانات مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ اور اگر یہ سچ مان لیا جائے تو اس کا مطلب کہ ہمیں ان کڑیوں کی طرف لے جانے والا بھی حیدر ہی ہے۔ حیدر چاہتا تھا کہ ہم اسے ڈھونڈ نکالیں۔ اسی نے ہمیں یہاں تک پہنچایا یعنی وہ جان گیا تھا کہ اسے غائب کر دیا جائے گا۔ تبھی اس نے اسطرح پلاننگ کی کہ ہم اس تک پہنچ جائیں مگر کسی اور کو خبر بھی نہ ہو”
“ہمم کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو۔ مگر حیدر نے جس طرح ہمیں اس راز تک پہنچایا ہے وہ بھی ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ یعنی حیدر اتنا بھی عام سیدھا سادھا آدمی نہیں تھا۔ یا تو وہ اتفاقاً بہت زیادہ انٹیلجنٹ تھا۔ یا پھر اسے اس طرح پیغام چھپا کر ارسال کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ بہرحال ہم سب دیکھ لیں گے۔ تم لوگ فی الحال اس جگہ جانے کی پلاننگ کرو۔ یہاں تک جائے بغیر قیاس آرائیاں کرنا فضول ہو گا”
“مگر سر یہ جگہ کوئی عام جگہ نہیں۔ اور نہ ہی ہم ایک دو لوگوں کا سامنا کرنے جا رہے ہیں۔ وہاں سینکڑوں کی تعداد میں اسلحہ ڈیلرز ہیں اور ہمیں ان سے نپٹنے کے لیے بہت زیادہ آرمی کی ضرورت ہے۔”
“نپٹنا تو تب پڑے گا جب ہم ان سے مقابلہ کریں گے۔ اور ہم ان سے کوئی مقابلہ نہیں کریں گے۔ بلکہ تم اور سبیکا وہاں جاؤ گے اسلحہ کے تاجر بن کر۔”
“یس سر۔ ”
احمد نے کہا اور مزید باتیں کرنے کے بعد کمرے سے باہر آ گیا۔
اب انہیں وہاں جانا تھا جہاں حیدر سے ان کا ممکنہ سامنا ہو سکتا تھا۔
سبیکا اور احمد کو اسلحہ کا تاجر بنا کر اس بازار تک پہنچا دیا گیا۔
یہاں سے آگے انکی تربیت اور مہارت کا امتحان تھا۔ ذرا سی چوک انہیں اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے پر مجبور کر سکتی تھی۔
یہ بازار ںظاہر عام بازاروں کی طرح تھا۔ جہاں گلیوں میں دونوں طرف دکانیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ دکانیں دیکھنے میں عام استعمال اور ضرورت کی چیزوں کی دکانیں تھیں۔ سبزیوں کی دکانیں، گوشت کی دکانیں اور کپڑے کی دکانیں۔ مگر انہی دکانوں سے دنیا بھر کیلیے دہشت خریدی جاتی تھی۔ یہاں انسانی جانیں خریدی جاتی تھیں اور موت بیچی جاتی۔
پہلی گلی مڑتے ہی اچانک ایک آدمی انکے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ “کس سے ملنا ہے تم لوگوں کو؟”
“بہادر سے”
سبیکا نے آگے بڑھ کر جواب دیا تو اس آدمی نے اثبات میں گردن ہلا کر انہیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ احمد نے حیرت سے سبیکا کو دیکھا کہ اسے کیسے پتہ انہیں بہادر سے ملنا ہے؟مگر سبیکا سامنے دیکھتے ہوئے اس آدمی کے پیچھے چلی جا رہی تھی۔چند گلیاں مڑنے کے بعد وہ آدمی انہیں ایک دکان کے اندر لے گیا۔ اور انہیں وہیں بٹھا کر خود وہیں موجود ایک دروازے سے اندر چلا گیا۔ باہر سے دیکھنے میں وہ دکان کا اسٹور روم لگتا تھا۔
“بہادر کون ہے؟ اور ہم اس سے کیا بات کریں گے”
احمد نے سرگوشی میں پوچھا۔
“اس جملے کے پہلے حرف کا ابتدائی لفظ جس نام سے لیا گیا تھا وہ نام بہادر تھا۔ اور ویسے اگر ہم اسے کوئی جواب نہ دیتے تو وہ ہمیں گولی مار دیتا۔ لہذا میں نے اندھیرے میں تیر چھوڑ دیا۔”
سبیکا نے کہا تو احمد کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ “یعنی یہ رسک تھا۔ بہت اچھے بھئی۔ اور سوچو اگر وہ نام سن کر گولی مار دیتا تو۔؟”
“تو کیا …ہم یہاں نہیں بیٹھے ہوتے۔ ویسے تم بے فکر رہو۔ مجھے اس لسٹ کے وہ سارے نام یاد تھے۔ کوئی ایک تو کام کر ہی جاتا” سبیکا نے لاپرواہی سے کہا۔
“ہاں وہ آدمی تو انتظار کرتا نا جیسے کہ تم اسے پوری رام کتھا سناتی رہو”
” افوہ بھئی۔ چپ کرو۔ اگر ہوتا تو دیکھتے۔ہوا تو نہیں نا۔ فی الحال یہ سوچو کہ ہمیں بہادر سے کیا بات کرنی ہے۔ یہ نہ ہو جو گولی ہم نے وہاں نہیں کھائی یہاں کھانی پڑ جائے۔ ”
سبیکا نے مزید لاپرواہی سے کہا تو احمد دل ہی دل میں اس کی عقل پر بیک وقت رشک اور ماتم کرنے لگا۔تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک آدمی اسی دروازے سے باہر نکلا۔ اسکے پیچھے وہی آدمی تھا جو انہیں وہاں بٹھا کر گیا تھا۔
“بولو کیا کام ہے؟”
آگے والے شخص نے کافی رکھائی سے پوچھا۔ اسکے چہرے پر کسی قسم کا کوئی تاثر نہیں تھا۔
سبیکا نے اسکے آگے وہی ڈائری سے ملنے والا صحفہ رکھ دیا جس کے ذریعے وہ وہاں تک پہنچے تھے۔ اس آدمی نے اسکے ہاتھ سے کاغذ لے لیا۔ اور کھولا۔
کاغذ پر نظر پڑتے ہی وہ آدمی چونک گیا۔
“بولو اس کے بدلے میں کیا چاہیے؟”
“وہ آدمی جو تین سال پہلے تم لوگ وہاں سے اٹھا کر لائے ہو؟”
“کون سا آدمی؟تمہارا مطلب وہ ڈاکٹر؟”
“ہاں ہاں وہی”۔ احمد نے کہا تو وہ آدمی تذبذب میں پڑ گیا۔
” ٹھیک ہے۔ مل جائے گا۔ لیکن تم لوگوں کو اس کاغذ کا مطلب بھی بتانا ہو گا۔ ورنہ تم تینوں جان سے جاؤ گے”
سبیکا اور احمد دونوں کی جان حلق میں اٹکی ہوئی تھی۔ انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اچانک ہی ہو جانے والی ان سب باتوں کے بعد بھی وہ دونوں معجزانہ طور پر زندہ تھے۔ اور تیر ٹھیک نشانے پر لگا تھا۔ کم از کم انہیں ایک بات کا پتہ چل گیا تھا کہ بہادر کو بھی اس کاغذ میں چھپے پیغام کا مطلب نہیں پتہ تھا۔ اور جب تک اسے یہ معلوم تھا کہ وہ دونوں اسکا مطلب جانتے ہیں تب تک وہ بھی زندہ تھے”
“ٹھیک ہے مگر پہلے تم ہمیں اس ڈاکٹر سے ملواؤ”
اس آدمی نے اشارہ کیا تو پہلے والا آدمی دوبارہ اس دروازے سے اندر چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھاجو دیکھنے میں انتہائی لاغر نظر آ رہا تھا۔ کمزوری کے باعث اسکی چال میں لڑکھڑاہٹ صاف ظاہر تھی۔کلائیوں اور پاؤں میں بیڑیوں کے نشان تھے جیسے لمبے عرصے تک اسے قید رکھا گیا ہو۔
احمدنے اسے پہچان لیا ۔ وہ حیدر ہی تھا۔
ابھی چند دن پہلے مالا اپنے موبائل پر جو تصویر دیکھ رہی تھی یہ حیدر اس تصویر سے کتنا مختلف تھا۔ اس تصویر میں اسکے چہرےپر زندگی رقصاں تھی اور یہ نخیف اور لاغر سا آدمی زندگی اور موت کے بیچ جھولتا ہوا۔۔۔ اسے حیدر کو یوں دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا۔ مگر سبیکا اور احمد نے اپنے جذبات پر قابو رکھا۔“ٹھیک ہے اب تمہاری باری ہے۔ اس کاغذ کا مطلب بتاؤ”
وہ آدمی خالص کاروباری انداز میں ان سے لین دین کر رہا تھا۔ اسے حیدر کی حالت سے کوئی غرض تھی نہ احمد اور سبیکا سے۔ اسے صرف اس کاغذ کی فکر تھی کہ اس میں کیا پیغام چھپا ہے؟”
“تمہارے لیے ایک جملہ ہے۔ “خون میں شفاء ہے”
یہ جملہ سنتے ہی اس آدمی کے چہرے پر پہلی بار جذبات کی ایک رو نظر آئی۔ حیرت اور خوشی سے اس نے دوبارہ پوچھا “کیا کہا تم نے؟”
“خون میں شفاء ہے”
اوہ اوہ۔ کاش یہاں اس بازار کا یہ اصول نہ ہوتا اور میں تم لوگوں سے پوچھ سکتا کہ تم کون ہو۔ مگر جو بھی ہو میرے لیے مسیحا بن کر آئے ہو۔ اس کے بعد اس آدمی نے دوسرے آدمی کو اشارہ کیا اور وہ حیدر کو پکڑ کر اندر لے جانے لگا۔
“اسے کیوں لے کر جا رہے ہو۔ یہ تو ڈیل کے مطابق ہمارا ہے نا”
“ہاں ہاں لے جانا۔ مجھے بس اس کی ایک بوتل خون چاہیے۔ ”
سبیکا اور احمد نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر حیرت سے اس آدمی کی طرف دیکھنے لگے۔
“مگر اسکی حالت ایسی نہیں کہ وہ ایک سرنج بھی خون دے سکے۔ اور اسکا خون ہی کیوں؟”
“چپ رہو۔ مجھے یہ کاغذ اس کے خون میں بھگونا ہے۔ تبھی اس کاغذ کی اصلی عبارت پڑھی جا سکے گی۔ ”
تبھی سبیکا کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ اسے یاد آ گیا کہ اس نے ایک آرٹیکل پڑھا تھا جو کسی نئی تحقیق کے بارے میں تھا۔ اس آرٹیکل کے مطابق اگر کسی انسان کے جسم میں پانی کی طرح ظاہری ساخت والے ایک خاص کیمیکل کو داخل کیا جائے تو اس کیمیکل سے کسی بھی کاغذ پر عبارت لکھ کر اس انسان کے خون میں بھگو دی جائے۔ سوکھ جانے پر عبارت ظاہر ہو جائے گی۔ یہ ایک طرح کی انویزبل انک (invisible ink) جیسا تھا۔
آرٹیکل کے مطابق یہ ایک عظیم دریافت تھی۔ اور یہ کیمیکل تجرباتی طور پر بہت سے لوگوں کو انجیکٹ بھی کیا جارہاتھا۔حیدر ان میں سے ایک تھا۔
مگر احمد اور سبیکا کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دہشت گرد جدت میں ان سے بھی آگے ہوں گے۔ اور اسکا استعمال ان کے مذموم مقاصد کیلیے ہو گا۔تقریبا دو گھنٹے انتظار کے بعد وہ آدمی حیدر کو واپس لے کر آیا۔ پھر اس نے ایک پیالہ حیدر کے اس خون سےبھر دیا جو ایک بوتل میں جمع تھا۔
حیدر تقریبا نیم بے ہوش تھا۔ اور غنودگی میں اسے اپنے آس پاس کی کچھ خبر نہیں تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔
وہ صحفہ اس پیالے میں ڈبو کر اس آدمی نے اچھی طرح سے خون اس صحفے پر لگایا۔اور پھر صحفہ اٹھا کر ایک کلپ کے ذریعے یوں باندھ دیا جیسے فوٹوگرافر تصویر صاف کرتے وقت اسے تار پر لٹکاتے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں خون خشک ہونے لگا اور صحفے پر ایک چہرہ ابھرنا شروع ہو گیا۔“اس ڈاکٹر نے ہمارے “گاڈ فادر” کا علاج کیا تھا۔ اور انہوں نے اپنا آخری وقت اس کے ساتھ ہی اسکے کلینک میں گزارا تھا۔ یہ انکا اچھا دوست بن گیا تھا۔ اکثر خفیہ پیغامات میں اسکی اچھائی اور انسانیت کا تذکرہ ہے۔ مرنے سے پہلے انہوں نے اپنی جگہ ایک نیا گاڈ فادر مقرر کیا تھا کہ یہی اصول ہے مگر ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہے؟ ہمارے دھندے میں ہم سب ایک ہی انسان کو مانتے ہیں جو ہمارا “گاڈ” ہوتا ہے۔یہ بازار گاڈ ہی چلاتا ہے۔اسلیے نئے گاڈ فادر کو جاننا ہمارے لیے بہت ضروری تھا۔
اس ڈاکٹر کو اسی لیے اٹھا لائے تھے۔ مگر یا تو اسے پتہ نہیں تھا یا جان بوجھ کر اس نے ہم سے چھپائے رکھا۔اور تم لوگ آ گئے۔ یقینا تم لوگ کوئی بڑی طاقت ہو۔ خیر اب اسے یہاں سے جلدی سے لے جاؤ۔ اس بازار میں قیدیوں کے زندہ واپس جانے کی کوئی رسم نہیں ہے۔ مگر چونکہ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہیں اس کاغذ کے بدلے میں جو چاہیے وہ دوں گا لہذا اسے جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے لے جاؤ۔”
وہ آدمی بولتا ہی گیا۔ اس کے بات ختم کرتے ہی احمد اور سبیکا اٹھے اور حیدر کو سہارا دے کر باہر لے آئے۔
بازار سے باہر کچھ ہی فاصلے پر انکی واپسی کا مکمل انتظام موجود تھا۔
احمد اور سبیکا نے سب سے پہلے حیدر کو ابتدائی طبی امداد دی۔ اسکی حالت انتہائی غیر تھی۔واپس پہنچتے ہی مالا کو حیدر کی واپسی کی اطلاع کر دی گئی۔ مالا تقریبا بھاگتی ہوئی اسپتال تک پہنچی ۔
“ابھی تم اندر نہیں جا سکتی”
احمد نے مالا کو روکا۔
“مگر کیوں؟”
مالا کی آواز میں التجا تھی۔
“ابھی حیدر کی حالت نازک ہے۔ تم دعا کرو۔ وہ ایک محب وطن انسان تھا جس نے تین سال اپنی زندگی داؤ پر لگائے رکھی مگر کسی راز سے پردہ نہیں اٹھایا۔”
“کیسا راز؟ ”
“مالا نے استفسار کیا۔
احمد نے اسے شروع سے ساری کہانی سنائی۔ اور اسے بتایا کہ حیدر جانتا تھا کہ وہ چھپا ہوا پیغام دہشت گردوں تک نہیں پہنچنا چاہیے۔اسلیے اس نے اپنی زندگی خطرے میں ڈالے رکھی اور ہمیں خود تک پہنچنے کا راستہ دیا مگر ان لوگوں کو حقیقت نہیں بتائی۔ وہ لوگ دہشت گردی کی کئی کاروائیوں کیلیے صرف اپنے گاڈ فادر کے اشارے کا انتظار کر رہے تھے۔ اور جب تک انہیں گاڈ فادر کا پتہ نہیں چل جاتا تب تک وہ بڑے پیمانے پر کوئی بھی کاروائی نہیں کر سکتے تھے۔مالا وہیں باہر بیٹھ گئی۔ ایک ایک سیکنڈ اسکے لیے گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔
اسے اپنے محبوب سے ملاقات کا انتظار تھا۔ حیدر اس کا شوہر۔۔۔ اسکا محبوب ۔۔۔واپس آ گیا تھا۔ احمد اسے لے آیا تھا۔ ۔۔ اور وہ ابھی تک یقین ہی نہیں کر پا رہی تھی کہ کیا زندگی میں ایسے معجزے بھی ہوا کرتے ہیں؟
🌷
“سبیکا دیکھو صرف میں اور تم جانتے ہیں۔ اس کاغذ پر جو شکل ابھری وہ ہم دونوں نے دیکھی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہمارے “ڈیفینس منسٹر” ہی دہشت گردوں کے گاڈ فادر ہیں۔ جنہوں نے ہماری حفاظت کا حلف لے رکھا ہے وہی ہمارے اس ملک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ایسے بھیڑیوں سے ملک کو پاک کرنا ہو گا۔ حیدر سمجھدار انسان تھا۔ وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا تھا۔ اسی لیے اس نے منہ نہیں کھولا۔جو راز اس نے اپنی جان کے بدلے میں دینا گوارا نہیں کیا۔ وہی راز دے کر ہم اسکی زندگی خرید لائے۔ہمیں اس مشکل صورتحال سے نکلنا ہو گا۔ مگر فی الحال حیدر کی حالت نازک ہے۔اور میری دعا ہے کہ وہ جلد از جلد ٹھیک ہو جائے”
احمد اپنی ہی رو میں بولتا چلا جا رہا تھا
حیدر نے آنکھیں کھولیں۔ مالا بھاگ کر اندر گئی۔ اس نے حیدر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ نقاہت کے مارے حیدر سے کچھ نہیں بولا جا رہا تھا۔ اس نے بولنے کی کوشش بھی کی مگر مالا نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔ “مجھے تم پر فخر ہے حیدر۔ کچھ نہ کہو۔ بس جلدی سے گھر چلو پھر ساری باتیں مکمل ہونے تک تمہیں اور کوئی کام نہیں کرنے دوں گی۔ ”
حیدر مالا کی بات سن کر بس ہلکا سا مسکرا دیا۔
“حیدر اس دنیا میں نہیں رہا”
سبیکا نے خبر دی تو احمد کو ایک لمحے کیلیے یقین نہیں آیا۔ وہ چکراسا گیااور وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اسکا دل زور سے سینہ پھاڑکرباہر نکل آئے گا۔
“مگر اسے تو کل ہوش آ گیا تھا نا”
بمشکل اسکے حلق سے الفاظ نکلے۔
“اسکی حالت بہت خراب تھی احمد۔ اسکا ایچ بی لیول بہت لو تھا۔ ڈاکٹروں نے کوشش کی مگر اسے نہیں بچا سکے۔ رات کسی پہر اسکے دل نے کام کرنا چھوڑ دیا اور اسکا ہارٹ فیل ہو گیا”
سبیکا نے تفصیل بتائی۔
“مالاااااااا”
احمد کو اچانک مالا کا خیال آیا۔ وہ اٹھ کر بھاگا۔
🌷
احمد بمشکل ہمت مجتمع کر کے اندر داخل ہوا۔ اس میں مالا کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ مالا کو کیسے سنبھالے گا۔ مگر اندر داخل ہوا تو اس نے مالا کو انتہائی اطمینان سے بیٹھے دیکھا۔
“مالا”
احمد کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا۔
مالا نےنظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ان آنکھوں کی ویرانی سے احمد کو وحشت محسوس ہوئی
🌷
“آو احمد۔ بیٹھو۔ ”
مالا نے انتہائی ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ احمد گنگ ہو کر وہیں بیٹھ گیا۔
“بے فکر رہو مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ ”
مالا کمال کا ضبط دکھا رہی تھی۔
“احمد جانتے ہو کچھ دن پہلے تک حیدر زندہ تھا اور میں ایک بیوہ کی سی زندگی گزار رہی تھی۔ مگر آج حیدر ہم میں نہیں ہے اور اب میں اسکی سہاگن بن کر زندہ رہوں گی۔ حیدر نے مجھے سب کچھ دیا۔ یہاں تک کہ مرنے سے پہلے میرا دل فخر و غرور سے بھر دیا۔ میرے پاس اسے لوٹانے کیلیے صرف محبت بچی ہے۔ آج سے ہر دن میں حیدر کے لیے جئیوں گی۔ اسکی یاد میں وہ سب کروں گی جو وہ مجھے کرتے دیکھنا چاہتا تھا۔ مجھ سے کوئی اس کے جانے کا افسوس نہ کرے۔ حیدر گیا نہیں ہے۔وہ میرے اندر زندہ رہے گا۔ ”
مالا ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں اٹھی اور دراز سے چوڑیاں نکال کر پہننے لگی جو حیدر کو اسکی کلائیوں پر بہت پسند تھیں۔
احمد کے گالوں پر سے ہوتے ہوئے ایک آنسو نیچے ٹپکا جو اس نے فورا صاف کر لیا تاکہ مالا دیکھ نہ سکے۔ وہ اس پاگل سی لڑکی پر حیران تھا۔
محبت انسان کو کتنا طاقتور بنا دیتی ہے یہ مالا کو دیکھ کر اسے یقین آ گیا۔ کہاں وہ یونیورسٹی میں اسکے ساتھ پڑھنے والی نازک اور ڈرپوک سی مالا اور کہاں یہ بہادر عورت۔ مالا اب واقعی “مالا حیدر” تھی۔
😢
احمد جانے کیلیے اٹھا۔ اس نے سامنے کھڑی اس عورت کو الوداع کہا جسے وہ اب تک کہیں نہ کہیں اپنے دل کے کسی نہاں کونے میں بساتا آیا تھا۔ مگر آج اس عورت کی آنکھوں میں اس نے دیکھ لیا تھا کہ اب وہ ہمیشہ جوگن بن کر جیے گی۔
اب احمد کے دل میں کوئی آس کوئی امید نہیں تھی۔ وہ جانتا تھا کہ جو شدت اس نے مالا میں دیکھی ہے۔ اب وہ ہمیشہ حیدر کی کہلائے گی۔ محںت کے رشتے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کبھی مل کر بھی دو لوگ ادھورے رہتے ہیں اور کہیں بچھڑ کر بھی محبت کی معراج پر آنچ نہیں آتی۔
اس نے مالا کو اپنے دل سے آزاد کر دیا۔
🌷
کچھ دن بعد خبروں میں ڈیفنس منسٹر کے ہلاک ہونے کی ہیڈ لائن تھی۔ دہشت گردی کے واقعے میں ڈیفنس منسٹر، گارڈ اور ڈرائیور جاں بحق ہو گئے تھے۔
صرف احمد اور سبیکا جانتے تھے کہ یہ کاروائی دہشت گردوں کی نہیں تھی۔ مگر “گاڈ فادر” کوجلد از جلد کسی اور طرح پکڑنا آسان نہیں تھا۔ اور وہ اسے اپنے ملک میں دہشت گردی کی اجازت اور موقع نہیں دے سکتے تھے۔ اب کم از کم کچھ عرصے کیلیے نئے گاڈ فادر کے آنے تک ایک خلا پیدا ہو گیا تھا جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردوں کی کمر توڑی جا سکتی تھی۔
مالا ہر ہفتے گجرے پہن کر حیدر کی قبر پر جاتی ہے۔ اکثر نور بھی اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ نور کو لگتا ہے کہ کہیں مالا کبھی ضبط نہ کھو بیٹھے۔مگر وہ خود بھی مالا کو دیکھ کر حیران ہے۔ ہمیشہ واپسی پر قبر پر پڑے دو پھول اگلے ہفتے تک مالا کا انتظار کرتے ہیں۔۔
🥀🥀
الوادع
اے ہمسفر !!!
مگر ٹھہرو ذرا کہ
گئے نہیں تم۔۔
میری سانسوں کی
خوشبو
اور میرے لمس
کی گرمی سے۔۔۔
تیرا ساتھ چھوٹا
نہیں ابھی۔۔۔۔
میرے ہاتھوں کی نرمی سے۔۔۔۔۔
اچھا لگتا ہے
ان رستوں پر
تیری یاد کے دیپ جلائے۔۔۔
تیرے انتظار میں رہنا۔ ۔۔
تیرے ملن کی آس لگائے۔۔۔
بے قرار سا رہنا۔ ۔ ۔
ختم شد