مالا نے دراز کھولا۔ اسکی نظر دراز میں پڑی ڈائری پر پڑی۔مالا نے وہ ڈائری نکال لی اور اسے کھول کر دیکھا۔ اسے اسی ڈائری کی تلاش تھی۔ ڈائری دیکھنے کے بعد مالا نے دراز میں موجود باقی چیزوں کا جائزہ لیا۔ وہیں اس کی نظر ایک صحفے پر پڑی جو اپنی خستہ حالت کے سبب کافی حد تک پیلا ہو چکا تھا۔ مالا نے احتیاط سے اسے نکالا اور کھولا۔ صحفے پر کچھ عجیب سی اشکال اور نشان بنے ہوئے تھے۔ اوپر کی طرف کچھ ایسے نشان جیسے حساب کے مضمون میں استعمال ہوتے ہیں۔ درمیان میں کچھ تکونیں اور آخر میں بھی کچھ اشکال سی بنی تھیں۔ مالا کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ مگر اس نے احتیاط سے صحفہ واپس تہہ کر کے ڈائری میں رکھ دیا۔
اس کے بعد مالا نے کمرے میں موجود باقی چیزوں کا جائزہ لیا۔ اور اسے جو بھی عجیب لگا اس نے وہ اٹھا کر بیگ میں ڈال لیا۔ مثلا اسے وہیں ایک شیلف پر کتابوں کے پیچھے ایک عجیب سا چاقو نما اوزار نظر آیا جو ڈاکٹر استعمال نہیں کرتے یا اس نے کم از کم حیدر کو استعمال کرتے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے وہ چاقو اٹھا لیا۔ اسی طرح اسے ایک پین بھی ملا جو حیدر کا نہیں تھا۔ حیدر کے زیر استعمال ہمیشہ ایک ہی برینڈ کا پین رہتا تھا اور وہ جانتی تھی کہ یہ ملنے والا پین حیدر کا نہیں ہے 💕
شام کو مالا پلان کے مطابق گھر سے نکلی تو خان دروازے پر ہی موجود تھا۔ “اچھا خان میں ذرا بازار تک ہو کر آئی۔ گھر کا خیال رکھنا”
مالا نے کہا تو خان فورا بولا
“بے فکر ہو کر جائیں بی بی جی۔ میں یہیں ہوں”.
مالا گھر سے نکلی ہی تھی کہ خان نے اپنا موبائل اٹھا کر کان سے لگا لیا۔دوسری طرف سے ہیلو کی آواز سنتے خان بولا” وہ ابھی ابھی گھر سے نکلی ہے۔ اور میرا نہیں خیال کہ واپس آئے گی۔ شاید ہمیں جو چاہیے وہ اس کے پاس ہے”
آگے سے جواباً کسی نے کچھ کہا اور کال بند کر دی۔
🌷
مال میں پہنچتے ہی مالا کی نظریں احمد کو تلاش کرنے لگیں۔ مگر اسے وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ مالا نے احمد کو نہ پا کر بظاہر ونڈو شاپنگ شروع کر دی۔ تبھی کسی نے پیچھے سے اس کے پاس آ کر ہیلو کہا۔
مالا نے فورا مڑ کر دیکھا تو حمزہ کو کھڑا پایا۔
“یہ آپ کیا ہر جگہ پہنچے ہوتے ہیں۔ جہاں جاؤ وہیں آپ کا نزول ہو جاتا ہے۔”
مالا سٹپٹا گئی۔
“یہی بات میں آپ کو بھی کہہ سکتا ہوں۔ جہاں میں جاتا ہوں۔ وہیں آپ پہنچی ہوتی ہیں۔ ”
حمزہ نے لفظ پہنچی پر زور دے کر کہا۔
اتنے میں مالا کے موبائل پر میسج آیا۔ مالا نے معذرت کر کے میسج کھولا تو احمد کا میسج تھا۔ “مالا اس لڑکے کو کافی کا پوچھو۔ اور اسے ٹیبل پر چھوڑ کر لیڈیز روم چلی جاؤ۔اور ہاں اس لڑکے کے سامنے کچھ ظاہر نہیں کرنا۔”
مالا نے میسج پڑھ کر پورے جسم میں ایک سرد سی لہر محسوس کی۔
پھر اسی اکتائے ہوئے لہجے میں بولی تاکہ حمزہ کو شک نہ ہو۔ “چلیں اب ٹکرا ہی گئے ہیں تو ایک ایک کپ کافی کا ہو جائے”
“نیکی اور پوچھ پوچھ۔ چلیے ”
وہ دونوں چلتے ہوئے کافی کارنر کی جانب چلے گئے اور وہیں لگی میز کرسیوں میں سے ایک دو کرسیوں والی میز پر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔
کافی پیتے ہوئے حمزہ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا اور مالا چند الفاظ میں جواب دیتی رہی۔
کافی پی کر مالا اٹھی “اچھا میں ذرا واش روم سے ہو آؤں”
“لو بھئی ۔ خود ہی کافی کیلئے آفر کر کے خود ہی بہانے سے بھاگ رہی ہیں تاکہ بل نہ دینا پڑے۔”
حمزہ نے کہا تو مالا نے فوراً بیگ کھولا “ارے نہیں نہیں۔ میں بل دے کر ہی جاتی ہوں تاکہ آپ کو تسلی رہے”
حمزہ نے قہقہہ لگایا اور مالا کو بل دینے سے منع کر دیا کہ وہ مذاق کر رہا ہے اور جب تک وہ بل دے رہا ہے تب تک مالا لیڈیز روم سے ہو آئے۔
مالا تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی لیڈیز روم کی جانب چل پڑی۔
اسے لگ رہا تھا جیسے اس کا دل زور سے دھڑک کر باہر آ جائے گا۔
جیسے ہی مالا اندر داخل ہوئی۔ سامنے ہی احمد کھڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ مالا کچھ کہتی ۔احمد نے اسے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
پھر آگے بڑھ کر مالا کے ہاتھ سے بیگ لے لیا اور جلدی سے ساری چیزیں ایک دوسرے بیگ میں الٹ دیں۔ خالی کرنے کے بعد احمد نے بیگ کو الٹا کر کے ہوا میں لہرایا تو مالا کو بیگ پر لگی ہوئی چپ نظر آ گئی۔بیگ وہیں پر رکھ کر احمد نے مالا کا ہاتھ پکڑا اور لیڈیز روم میں موجود ایک پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔ یہ دروازہ مال میں دوسری طرف کھلتا تھا۔ دونوں تقریبا بھاگتے ہوئے پچھلی پارکنگ میں پہنچے جہاں سے احمد نے گاڑی نکالی اور ان دونوں کے بیٹھتے ہی مین روڈ پر ڈال دی۔
🌷
“یہ سب کیا تھا؟”
مالا نے حواس بحال ہونے کے بعد احمد سے سوال کیا۔
“انہیں معلوم تھا کہ تم واپس نہیں آؤ گی۔ اور تمہارے فون سے وہ تمہیں ٹریس نہیں کر پا رہے تھے۔ اسی لیے انہوں نے تمہارے بیگ پر چپ لگانے کیلیے اپنا آدمی بھیجا۔ ”
احمد کی بات سنتے ہی مالا نے ٹوک دیا ” مگر مجھے تو ایسا کوئی آدمی نہیں ٹکرایا نہ میں نے بیگ کہیں خود سے الگ رکھا کہ کسی کو چپ لگانے کا موقع مل سکتا۔ ”
“جو لڑکا تمہارے ساتھ بیٹھا تھا۔ اسی نے یہ چپ لگائی ہے۔ یا یوں کہو کہ میں نے خود اسے موقع دیا کہ وہ تمہارے بیگ میں چپ لگا سکے”
“کون؟ حمزہ؟”
احمد کے انکشاف پر مالا حیرت زدہ رہ گئی۔
“تو تمہیں کیا لگا کہ وہ سچ میں تمہارا دیوانہ ہو گیا ہے جو ہر جگہ تمہاری محبت میں پہنچ جاتا ہے۔وہ تم پر نظر رکھنے کیلئے تمہارے قریب بھیجا گیا ہے۔ مجھے تو بہت پہلے ہی اس پر شک ہو گیا تھا مگر تمہیں پتہ نہیں کس بیوقوفی کے خمیر سے بنایا گیا ہے کہ تمہیں اپنے پرائے یا اچھے برے کی تمیز ہی نہیں ہوتی۔ ہر جگہ تو وہ اتفاقاً نہیں پہنچ سکتا نا”
احمد کی اس بات پر مالا نے خفت ذدہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
“تو صحیح کہہ رہا ہوں نا۔ جیسے وہ تم پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ ویسے میری نظر اس پر تھی۔ اب انہیں کم از کم اگلے چند منٹوں تک تو نہیں پتہ چلے گا کہ تم لیڈیز روم سے میرے ساتھ بھاگ گئی ہو۔ اور جب تک انہیں پتہ چلے گا تب تک ہم محفوظ مقام پر پہنچ چکے ہوں گے۔
🌷
کمرے میں پہنچتے ہی احمد نے بغیر رکے مالا سے سوال کیا “تمہیں وہاں سے کچھ ملا جو ہمارے کام آ سکے”
سبیکا بھی وہیں موجود تھی۔
مالا نے بیگ کی جانب اشارہ کیا۔
احمد نے فورا بیگ کو کمرے میں موجود بیڈ پر الٹ دیا۔
مالا نے ڈائری اٹھا کر احمد کو دی۔”اس ڈائری میں حیدر اپنے سارے مریضوں کی معلومات رکھتا تھا۔ مطلب نام پتہ وغیرہ۔
“کیوں؟ اس کام کیلئے تو کوئی پرسنل سیکرٹری یا مینجر وغیرہ رکھا جاتا ہے” احمد نے سوال کیا تو مالا نے کہا
“ایک پرسنل سیکرٹری تھی کلینک میں لیکن وہ کلینک میں موجود مریضوں کا واجبی سا ریکارڈ رکھتی تھی۔ جبکہ حیدر اکثر گھر پر بھی مریض دیکھتا تھا اور کئی بار اسے مریض کے بتائے ہوئے مقام پر بھی جانا پڑتا۔ تو ایسے میں یاد رکھنے کیلیے کہ وہ نام پتہ لکھ لیا کرتا تھا۔
احمد نے ڈائری کھولی۔ ڈائری کو بہت طریقے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سلیقے سے لکھا گیا تھا۔ جیسے اکاؤنٹس میں لیجر کی انٹریز ہوں۔
ایک کالم میں مریضوں کے نام اور اگلے میں انکی بیماری کے بارے میں درج تھا۔
اسی طرح انکا پتہ اور تاریخ تک لکھی ہوئی تھی۔
چند مریضوں کے نام کے آگے سبز رنگ کا ستارہ بھی بنا ہوا تھا۔
ڈائری بند کر کے احمد نے سبیکا کے ہاتھ میں دی۔ اور باقی چیزیں اٹھا کر دیکھنے لگا۔ تبھی مالا نے اسے ڈائری کے آخر میں رکھے گئے اس صحفے کے بارے میں بتایا۔
سبیکا نے احتیاط سے فورا وہ صحفہ نکالا اور اسے کھولا۔
“اوہ مائی گاڈ”
سبیکا کے منہ سے بے اختیار نکلا تو احمد نے بھی آگے بڑھ کر صحفہ دیکھا۔
مالا کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ دونوں صحفے کو ایسے کیوں دیکھ رہے تھے۔”کیا ہے اس میں؟”
مالا نے پوچھا تو سبیکا بولی
“ایک اہم اور خفیہ پیغام۔ یہ صحفہ براہ راست دو سربراہوں کے بیچ میں معلومات کا تبادلہ ہے”
“مگر تمہیں کیسے پتہ یہ۔ اور کیسا خفیہ پیغام۔؟”
“پیغام تو ہمیں ڈی کوڈ کرنا پڑے گا۔ مگر یہ دیکھو” سبیکا احمد کو بھی صحفہ دکھانے لگی۔
سبیکا کو اس طرح کی خفیہ معلومات ڈی کوڈ کرنے کی تربیت بھی دی گئی تھی۔
“یہ جمع (+) کے تین نشان۔ یہ اس دستاویز کے انتہائی خفیہ اور اہم ہونے کی نشاندھی کرتا ہے۔
اور یہ کونے میں یہ( ^^₹^^)نشاناسکا مطلب یہ ہے کہ یہ پیغام موت سے پہلے اور صرف ایک انسان کیلیے ہے۔ مطلب یہ کسی ایک آدمی کیلئے کوئی خفیہ پیغام ہے۔ اور یہ ستارے(***) یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پیغام دینے والا کوئی سربراہ یا انتہائی اہم رکن ہے۔
پھر احمد نے مالا سے پوچھا”یہ صحفہ کیا وہیں دراز میں سامنے ہی پڑا تھا؟”
“نہیں۔ اس دراز میں موجود ایک دوسرے دراز میں۔ ”
“مجھے لگتا ہے کہ یہ صحفہ جان بوجھ کر سامنے ہی رکھا گیا ہے تاکہ آسانی سے ڈھونڈا جا سکے۔ اور ہو سکتا ہے کہ حیدر چاہتا ہو کہ کوئی اس تک پہنچ جائے۔”
احمد نے کہا تو مالا کو لگا جیسے اسکی ایک دھڑکن اٹک کر اس کے اندر ہی کہیں گم ہو گئی ہو۔
“ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔کہ یہ کاغذ جان بوجھ کر ہم تک پہنچایا گیا ہے۔ یا یوں سمجھتے ہیں کہ کسی کے لیے جان بوجھ کر رکھا گیا تھا اور ہم نے اسے حاصل کر کیا۔ ”
سبیکا نے احمد کی تائید کی۔
“ہمیں یہ کاغذ سر تک پہنچانا چاہیے۔ یہ ایک بڑی دریافت ہے”
سبیکا نے احمد کی یہ بات سننے کے بعد تائید میں سر ہلایا اور احتیاط سے اس صحفے کو تہہ کر کے اپنے پاس رکھ لیا۔
🌷
“سر مجھے لگتا ہے کہ اس سے ہمیں کافی کچھ معلوم ہوسکتا ہے.آپ ایک نظر اسے دیکھیے ذرا۔”
احمد نے کہا اور کاغذ کھول کر میز پر رکھ دیا۔
احمد اور سبیکا کے علاوہ وہاں دو اور لوگ بھی موجود تھے۔
پھر ان میں سے ایک آدمی نے کاغذ کو اٹھا کر بغور دیکھا۔ وہ آدمی شاید یہ پیغام سمجھتا تھا۔ جبھی اس کے چہرے پر فکرمندی کے آثار پیدا ہو گئے۔
“یہ ایک مشکل مشن ہو گا”
اس نے کہا تو احمد اور سبیکا نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر سبیکا بولی “سر آپ ہم ہر اعتبار کر سکتے ہیں۔ ہم ہر حال میں اس مشن کیلیے اپنی جان تک بھی قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔”
“گڈ۔ مجھے تم دونوں پر پورا اعتماد ہے۔ ہمیں اس پیغام کو پورا ڈی کوڈ کرنا ہو گا۔یہ دیکھو یہ تکونیں۔ یہ کسی مقام کا نقشہ ہے۔ مگر ہم نہیں جانتے کس جگہ کا۔اور اس جگہ کی تفصیل جانے بغیر وہاں جانے کی پلاننگ کرنا بچگانہ ہو گا۔”
اچانک احمد کو کچھ خیال آیا۔ “سر یہ صحفہ ایک ڈائری کے بیچ میں سے ملا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو وہ ڈائری بھی ایک نظر دیکھنی چاہیے۔”
احمد نے ڈائری نکال کر اس آدمی کے حوالے کر دی۔ ڈائری کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کے بعد اس آدمی نے کہا “یہ ڈائری ہی اس پیغام کی چابی ہے۔ اس صحفے کے اوپر یہ جو بلاک سا بنا ہوا ہے یہ کسی کتاب کی طرف نشان دہی کرتا ہے۔ اور چونکہ یہ صحفہ اس ڈائری کے اندر سے رکھا ملا ہے۔اسلیے اس نشان سے مراد یہ ڈائری ہی یے۔ اس کا مطلب کہ کوئی بہت شدت سے چاہتا تھا کہ یہ پیغام پڑھ لیا جائے۔مگر شاید اسے مہلت ہی اتنی ملی”
سبیکا نے اس آدمی کی توجہ ڈائری پر موجود چند ناموں کی طرف دلائی جن کے ساتھ سبز رنگ کا ستارہ بنایا گیا تھا۔
دو منٹ ان ناموں کو دیکھنے کے بعد اس آدمی کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ “یس یس۔۔۔یہ دیکھو۔ وہ خوشی سے تقریباً چلایا”
اسے ان سبز ستاروں کا مطلب سمجھ آ گیا تھا۔
“جلدی سے پین دو مجھے”پین ہاتھ میں لے کر اس آدمی نے جلدی جلدی ایک صحفے پر کچھ لکھنا شروع کیا۔ چند منٹ بعد اس نے صحفہ سبیکا کے آگے رکھ دیا۔ سبیکا تقریبا خوشی سے چلائی۔ “واؤ سر۔ مجھے آپ پر پورا بھروسہ تھا۔ مجھے آپ کی اسٹوڈنٹ ہونے پر فخر ہے”.
صحفے پر ہر آدمی جس کے نام کے آگے سبز ستارہ بنا ہوا تھا اس کے نام کے پہلے حروف لکھے ہوئے تھے۔ اگر کسی کے نام میں دو الفاظ تھے تو دونوں کاپہلا حرف اور اگر کسی کے نام میں تین الفاظ تھے تو تینوں ناموں کا پہلا لفظ لکھا ہوا تھا۔
اب صحفے پر انگریزی کے مختلف حروف تہجی لکھے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
DLSREUIBOCO
اس کے بعد اس آدمی نے کاغذ سبیکا کے آگے کر دیا۔سبیکا نے پینسل پکڑی اور مختلف الفاظ کے جوڑ توڑ کرنے شروع کیے۔
Cool
Sold
Rude
Blood
سبیکا کے چہرے پر تناؤ صاف نظر آ رہا تھا اور پھر تھوڑا سا دھیان دینے کے بعد سبیکا نے دیے گئے الفاظ کو ترتیب دے کر ایک جملہ بنا لیا
“Blood is cure”
🌷🌷
کمرے میں موجود سب افراد اس جملے پر حیران سے ہوئے۔ اس کا کیا مطلب ہو سکتا تھا۔ کسی کے خون سے کسی شفاء کا کیا تعلق ہو سکتا تھا؟
اچانک احمد نے کہا “مجھے لگتا ہے کہ اس بات کا سرا حیدر سے جا ملتا ہے۔ شاید اسی کے خون میں کوئی ایسی بات ہے یا پھر اس نے کسی اور کے خون کے متعلق کوئی ایسی بات لکھی ہے ۔ معاملہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمیں صرف ایک جملے پر سارا فوکس رکھنے کے ساتھ ساتھ اس صحفے پر بھی دھیان دینا چاہیے۔ ہمیں اس پیغام کو مزید ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ ”
“بے شک۔ یہ جملہ تو صرف ایک کڑی ہے۔ اگر ہم اسی میں الجھ گئے تو شاید دیر کر دیں گے۔ اس صحفے پر موجود یہ نقشہ ہمیں ڈھونڈ نکالنا ہو گا۔ تاکہ ہم اس جگہ کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کر کے کوئی پلان ترتیب دے سکیں۔ ”
کمرے میں موجود ایک آفیسر نے احمد کی بات سن کر جواب دیا۔
احمد اٹھا اور ایک کیلنڈر نما دستاویز اٹھا لایا۔ یہ مختلف زاویے سے دنیا بھر کے نقشہ جات کا مجموعہ تھا۔ جیسے سبیکا کو چھپے ہوئے پیغام ڈی کوڈ کرنے کی ٹریننگ دی گئی تھی۔۔ویسے ہی احمد بھی نقشہ پڑھنے میں ماہر سمجھا جاتا تھا۔
یہ دونوں اسپیشل اسکواڈ کا حصہ تھے اور خداداد صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انکی ٹریننگ کی گئی تھی۔
احمد تھوڑی دیر مختلف نقشہ جات کو دیکھتا رہا۔ پھر ایک مقام پر اس نے دائرہ لگایا۔ اور کہنے لگا
“یہ تین تکونیں اس جگہ کا نقشہ ہیں۔ ”
باقی افراد بھی جھک کر دیکھنے لگے۔ نقشے پر یہ علاقہ کسی ملک کی حدود میں نہیں آتا تھا۔ تین پہاڑ بالکل اسی طرح دکھائی دے رہے تھے جیسے اس صحفے پر تین تکونیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ تین تکونیں بھی مل کر ایک تکون بنا رہی تھیں۔ اور نقشے پر پہاڑ بھی تکون کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔
“مگر یہ پرانا نقشہ ہے۔ اب اس جگہ یہ پہاڑ نہیں ہیں۔ اور لینڈ سلائڈنگ کے باعث یہ جگہ کافی حد تک چپٹی ہو چکی ہے۔ ہماری انٹیلیجنس کی معلومات کے مطابق اب یہاں ایک غیر قانونی بازار قائم ہے جہاں سے دنیا بھر میں دہشتگردی کے لیے اسلحے کی سپلائی کی جاتی ہے۔“یعنی ہمارا مقابلہ بیرونی قوتوں سے ہے۔ اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ حیدر اس معاملے میں قصور وار ہے یا بالکل بےقصور۔ حیدر کو بے قصور سمجھنے کی صرف ایک وجہ ہے ہمارے پاس اور وہ یہ کہ تمام کڑیاں ہمیں اس کے گھر سے ملی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ یہ پرنٹس اسی نے چھوڑے ہوں ٹریک کرنے کیلیے تاکہ اس تک پہنچا جا سکے۔ مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سب کے پیچھے کوئی اور ہو اور ایسے میں حیدر کی حیثیت انتہائی مشکوک ہو جاتی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے مالا کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ تاکہ حیدر کی محبت میں وہ ہمارے لیے کوئی مصیبت نہ کھڑی کر دے”
آفیسر نے بات ختم کی تو احمد بول اٹھا “یہ سب آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ اس کی طرف سے آپکو کوئی پریشانی نہیں ہو گی”
“ہمم۔۔میک اٹ شیور احمد۔ ہم کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتے۔ اور ہاں اس کمرے سے کوئی بات باہر نہیں جانی چاہیے۔ میرا مطلب کہ تم یہ ساری بات چیت اور ہماری جملہ ڈی کوڈ کرنے کی کامیابی کے بارے میں تم مالا کو بھی کچھ نہیں بتاؤ گے”
اس کے بعد آفیسر نے آخری ہدایات دیں اور میٹنگ ختم کر دی۔
💕🌷
احمد شام کو مالا سے ملنے اکیلا ہی اس کے کمرے میں گیا۔مالابیٹھی موبائل میں حیدر کی تصاویر ہی دیکھ رہی تھی۔ احمد اندر آیا تو وہ موبائل رکھ کر احمد سے مخاطب ہو گئی.” کچھ پتہ چلا؟”
“نہیں۔ مگر امید ہے کہ جلد ہی پتہ چل جائے گا۔”
احمد نے اس سے ساری بات چھپا لی اور اچانک پوچھا
“کیا تم حیدر سے بہت محبت کرتی ہو؟”
اس سوال پر مالا حیران ہو گئی۔ “یہ کیسا سوال ہے احمد؟ اگر تم مجھ سے کوئی فضول بات کرنے آئے ہو تو پلیز واپس چلے جاؤ۔ ”
مالا کو یک دم غصہ آنے لگا۔
“ارے نہیں۔ تم غلط مطلب مت نکالنا۔ میں صرف ایک دوست کی حیثیت سے تم سے پوچھ رہا ہوں۔ تم نے اتنا سہا ہے اور آج بھی تمہاری آنکھوں میں حیدر کیلیے محبت صاف نظر آتی ہے”
“ہاں میں حیدر سے بہت محبت کرتی ہوں۔ اور شاید تم نہیں سمجھو گے کہ جب دو لوگوں کی محبت ایک رشتے سے جڑی ہوتی ہے تو اسکی مضبوطی اور پائیداری اس رشتے کو کتنا گہرا کرتی جاتی ہے۔”
احمد کو لگا جیسے مالا نے اس پر طنز کیا ہو۔
“تم پھر غلط سمجھ رہی ہو۔ میں اچھے سے سمجھتا ہوں کہ تم دونوں نے اتنے سال ایک دوسرے کے ساتھی کی حیثیت سے گزارے ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ تم حیدر کو کتنا جانتی ہو۔ کبھی کبھی ہم ساتھ ہونے کے باوجود بھی اپنے ساتھی کی کسی بات سے اتنا انجان ہوتے ہیں کہ ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی۔ یا کبھی کبھی زندگی ایسا موقع ہی نہیں دیتی کہ ہم انکے بارے میں جان سکیں”
“صاف صاف کہو تم کہنا کیا چاہتے ہو؟”
“مالا میں حیدر کے متعلق جاننا چاہتا ہوں اور یہ سب مجھے تم ہی بتا سکتی ہو۔ اس لیے ضروری سمجھا کہ پہلے یہ جان لوں کہ تم خود حیدر کے بارے میں کتنا جانتی ہو۔؟”
” تم سبیکا سے محبت کرتے ہو؟”
اس اچانک سوال پر احمد گڑبڑا گیا۔ “یہ کیسا سوال ہے؟”
“کیوں کیا صرف تم پوچھ سکتے ہو اور میں نہیں۔ آخر ہم دوست ہیں؟”
مالا نے احمد کی بات واپس لوٹائی تو احمد نے جواب دیا “نہیں۔ اور شاید تم بھی نہیں سمجھ سکتی کہ کبھی کبھی رشتہ بھی محبت کی ضمانت نہیں ہو سکتا”
“ہم سب اپنی اپنی زندگی کو اپنی قسمت اور ہمت کے مطابق جیتے ہیں۔”
احمد کی بات سن کر مالا چپ ہو گئی