بیل مسلسل بج رہی تھی۔۔ احمد آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ یہ رات کے اس پہر کون فون کر سکتا تھا؟
اس نے سبز بٹن دبایا اور فون کان کے ساتھ لگا لیا۔
“ہیلو”
” ہیلو ۔احمد میں مالا بول رہی ہوں۔ تم پلیز جلدی سے آ جاؤ۔۔ ”
“اس وقت ؟ اتنی رات کو”
“ہاں۔مجھے لگ رہا ہے کہ گھر میں کوئی ہے۔میں اور نور کمرے میں ہیں۔”
“کیا؟ ” احمد جو ابھی تک نیم غنودگی میں تھا۔ اٹھ بیٹھا۔
“اچھا۔ تم انتظار کرو میں آتا ہوں۔تب تک کمرے کا دروازہ اچھی طرح بند رکھنا”
فون بند کرتے ہی احمد نے ایک اور نمبر ملایا۔
بیل بج رہی تھی۔ چند لمحوں کے بعد کسی نے فون اٹھایا ۔ نسوانی آواز ابھری “ہیلو۔ خیریت اتنی رات کو فون؟ ”
“سبیکا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ رات کو مالا کے گھر
نہیں جانا ہے۔ ہمیں جو بھی کام کرنا ہے دن کو ہی مکمل کریں گے۔ مگر تم میرے منع کرنے کے باوجود وہاں پہنچ گئی ۔وہ اکیلی رہتی ہے۔ڈر گئی ہے۔ اس کی کال آئی تھی ابھی۔”
احمد کی آواز میں غصہ اور سختی تھی۔
“مگر میں تو یہاں میس میں ہوں۔ اور اپنے کمرے میں سو رہی ہوں۔ تمہیں کس نے کہا کہ میں مالا کے گھر پر ہوں۔”
سبیکا نے حیرانی سے جواب دیا تو احمد ایک دم چوکنا ہو گیا۔
“اوہ تو تم نہیں ہو وہاں۔ اسکا مطلب وہاں کوئی اور ہے۔ شاید وہی۔ جس کی ہمیں تلاش ہے۔ تم فورا مالا کے گھر پہنچو ۔ میں بھی وہیں آتا ہوں۔ ”
احمد نے فون رکھا ۔ جلدی سے اٹھ کر اپنا کوٹ پہنا۔۔
چابیاں اٹھائیں اور باہر نکل گیا۔
“مالا ۔۔۔۔۔مالا۔۔۔”
کسی نسوانی آواز نے کمرے کے باہر سے پکارا تو مالا اور نور نے دروازہ کھول دیا۔ سامنے وہی لڑکی کھڑی تھی۔ جسے مالا نے احمد کے ساتھ دیکھا تھا۔ ۔۔۔ سبیکا۔۔
“تم”
مالا کی آواز میں حیرت کی جھلک تھی۔
“ہاں۔ میں نے پورا گھر اچھی طرح دیکھ لیا ہے۔ یہاں کوئی نہیں ہے۔ شاید چلا گیا۔”
سبیکا نے اندر آتے ہی کہا۔
“مگر تم اندر کیسے آئی۔ اور تمہیں کس نے کہا یہاں آنے کو”
مالا نے سخت لہجے میں سوال کیا تو سبیکا نے ایک لمحے کیلیے اسکی آنکھوں میں دیکھا ۔ مالا کی نظریں اسے اپنے اندر گڑھتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔
“اندر آنا کوئی مسئلہ نہیں ۔ اور مجھے یہاں آنے کیلیے احمد نے کہا تھا۔ وہ بھی جلد ہی یہاں پہنچ جائے گا”
سبیکا نے کہا تو نور جو ابھی تک سہمی سی مالا کے ساتھ ساتھ کھڑی تھی اپنے حواس بحال کرتے ہوئے بولی “سبیکا آؤ بیٹھو۔ جب تک احمد نہیں آتا ہم سب احتیاطاً اسی کمرے میں بیٹھتے ہیں۔”
سبیکا نے مسکرا کر سر ہلایا اور وہیں کمرے میں موجود کرسی پر بیٹھ گئی۔
مالا نے دیکھا کہ مسکرانے سے اس کے گال پر گڑھا پڑتا تھا۔ وہ بلاشبہ ایک خوبصورت اور زندگی سے بھرپور لڑکی لگتی تھی۔ اگر احمد نے اسے نہ بتایا ہوتا تو وہ کبھی یقین نہ کرتی کہ یہ نازک اور حسین سی لڑکی کوئی “ایجنٹ” ہے۔
🌷
چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ احمد بھی وہیں پہنچ گیا۔ سبیکا احمد کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ احمد نے اسے بات سننے کیلیے کہا اور دونوں کمرے سے باہر چلے گئے۔ مالا اور نور وہیں بیٹھی رہیں۔ پانچ منٹ کے بعد وہ دونوں دوبارہ اندر آئے تو مالا اور نور کے چہروں پر اضطراب نمایاں تھا۔
“تم دونوں سوچ رہی ہو گی کہ ہم نے کیا خاص بات کرنی تھی کہ باہر جانا پڑا۔ دراصل میرا اور سبیکا کا خیال ہے کہ تم دونوں کو اعتماد میں لے لیا جائے۔ نور بھی اب چونکہ غیر ارادی اور انجانے میں اس سب کا حصہ بن گئی ہے لہذا تم دونوں کو یہ سب بتانا ضروری ہو گیا ہے”
احمد بول رہا تھا اور مالا اور نور دم بخود سنے جا رہی تھیں۔ احمد مالا کی طرف مڑتے ہوئے بولا
” مالا حیدر کو ایسے ہی نامعلوم افراد اٹھا کر نہیں لے گئے۔ بلکہ انہوں نے باقاعدہ پلاننگ کر کے حیدر کو اغواء کیا ہے۔”
“کیا مطلب ہے تمہارا؟ اور تمہیں یہ سب کیسے پتہ؟ ”
مالا نے پہلی دفعہ لب ہلائے۔ اس کی آواز میں لرزش تھی۔
“مالا حیدر کا ان سے گہرا تعلق تھا۔ ہم نہیں جانتے کہ حیدر نے جان بوجھ کر ایسا کیا یا اس نے انجانے میں اس انسان کو سہارا دیا جو دہشت گردوں کی ریڑھ کی ہڈی تھا۔ حیدر نے ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ کا علاج کیا تھا۔ اس آدمی نے نہ صرف اپنا آخری وقت حیدر کے ساتھ گزارا بلکہ مرنے سے پہلے کچھ انتہائی اہم معلومات بھی حیدر کو سونپ گیا۔ ”
“یہ سب کیا بکواس ہے؟ ”
مالا نے سختی سے جھڑک دیا۔ “حیدر کبھی کسی ایسی تنظیم کا رکن یا انکا مددگار نہیں ہو سکتا۔ وہ صرف ایک فرض شناس ڈاکٹر تھا۔۔”
مالا نے مضبوطی کے ساتھ کہا تو احمد گویا ہوا
“تو ہم پھر یہ مان لیتے ہیں کہ حیدر نے انجانے میں اس آدمی سے وہ معلومات لے لیں جن کی اہمیت کا اندازہ شاید خود اسے بھی نہیں تھا۔۔
میں اور سبیکا اسی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ ہمیں حیدر کو ملنے والی ان معلومات کے بارے میں پتہ کرنا ہے کہ حیدر نے انہیں کہاں چھپایا یا رکھا ہے۔ کیونکہ ہماری اطلاع کے مطابق صرف ان معلومات کو واپس حاصل کرنے کی خاطر دہشت گردوں نے حیدر کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس سے تم ان معلومات کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتی ہو۔”
“کیا حیدر زندہ ہے؟
مالا کی آواز میں درد اور محبت کی شدت صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
“ہمم ہماری اطلاع کے مطابق تو زندہ ہے۔ دہشت گرد اسے پہاڑوں کے راستے بارڈر کے پاس لے گئے ہیں ۔ وہاں انکا ٹھکانہ غاروں میں ہے۔ ”
“تو کیا تم لوگ حیدر کو واپس نہیں لا سکتے؟ ”
“اول تو ان دہشت گردوں کے ٹھکانے تک لے جانے والا زمینی راستہ صرف ایک ہے جو کہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ دوئم انہوں نے اس راستے پر نہ صرف کڑا پہرہ لگا رکھا ہے بلکہ جگہ جگہ بارودی سرنگیں بھی تیار کر رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ جگہ جگہ انکے اڈے ہیں جہاں انکے ساتھی نہ صرف چوکنے ہیں بلکہ زمینی اور فضائی حدود پر نظر بھی رکھے ہوئے ہیں یعنی فضائی طریقے سے بھی رسائی ممکن نہیں ۔
ایسے میں پوری پلاننگ کے بغیر وہاں تک جانا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف ہمارے جوانوں کی جان کو خطرہ ہے بلکہ حیدر کی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔”
احمد نے اپنی بات جاری رکھی۔
“مالا ہمیں اگر وہ معلومات مل جائیں تو شاید ہم حیدر کو بچا سکیں۔اور تم ہماری مدد کر سکتی ہو”
“میں؟ میں کیا مدد کر سکتی ہوں”
مالا نے کہا تو سبیکا نے اسے ٹوک دیا
” فی الحال ہمیں مالا کو لے کر چلنا چاہیے۔ کیونکہ اب یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ۔میرے خیال میں ہم یہ بھی بتا دیں تو بہتر ہو گا کہ حیدر کے اغواء کے بعد سے دہشت گردوں نے تمہیں ایک دن کیلئے بھی اکیلا نہیں چھوڑا ہے۔ تم ہر گہری نظر ہے انکی۔ وہ تمہارا خان بابا انہی کا آدمی ہے”
“خان بابا ۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔”
مالا کا سر چکرانے لگا۔
“اور اس کا اصل نام جوگندر ہے۔ باہر بےہوش پڑا ہے۔ اس سے پہلے اسے ہوش آئے ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے ”
سبیکا نے کہا تو نور اور مالا گھبرائی سی انکے ساتھ چل پڑیں۔
🌷
نور کو اس کے گھر چھوڑ کر مالا کو سبیکا اپنے ساتھ میس لے گئی۔ “اب سے تم یہیں رہو گی اور باہر کہیں بھی میرے یا احمد کے بغیر نہیں جاؤ گی۔ تمہیں گھر پر نہ پا کر یقینا وہ لوگ بھی چوکنے ہو جائیں گے۔ چونکہ جوگندر کو بھی نہیں پتہ کہ تم کہاں گئیں لہذا وہ ہر ممکن طریقے سے تمہیں ٹریس کرنے کی کوشش کریں گے۔ اپنا سیل فون مجھے دے دو۔”
سبیکا نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو مالا نے چپ چاپ اپنا موبائل فون اسے دے دیا۔ سبیکا وہیں بیٹھ گئی۔ اس نے مالا کا موبائل کھولا اور اس میں ایک چپ لگائی۔ “یہ لو”
سیبیکا نے فون واپس مالا کو دیا۔ “اس میں ایک خاص طرح کی چپ لگائی ہے جس کی وجہ سے تمہاری لوکیشن ٹریس کرنا ممکن نہ ہو گا۔ اور اس چپ کے ایک فنکشن کے ذریعے ہم جب چاہیں ان لوگوں کو اپنی مرضی کی لوکیشن بھی ٹرانسفر کر سکیں گے۔”
ہمممم” مالا نے کہا تو۔
سبیکا بولی”تم آرام سے یہاں سو جاؤ۔ صبح بات کریں گے۔ ”
“ٹھیک ہے”
“اچھا سنو ایک اور بات”
مالا جو بستر پر جانے کیلیے مڑ رہی تھی۔ رک گئی اور پلٹ کر دیکھا۔
“سوری۔”
“کس بات کیلیے؟”
مالا نے حیرانی سے پوچھا تو سبیکا دو لمحے کیلیے رکی۔ پھر بولی “تمہیں وہ فون کال کرنے کیلیے۔ شاید اگر میں وہ کال نہیں کرتی تو آج احمد تمہارے ساتھ ہوتا”
“زندگی میں جو گزر چکا ہے اور بدلا نہیں جا سکتا میں اس پر کیا افسوس کروں۔ میں نے تمہیں معاف کیا۔ قسمت کی لکیروں کا کھیل ہی ایسا تھا کہ شاید اگر میں وہ کال نہ سنتی تو احمد آج تمہارے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔ ”
مالا کے لہجے میں مایوسی تھی۔
“احمد میرے ساتھ ہے۔ لیکن آج بھی تمہارے پاس ہے۔ وہ میرا ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ مالا کا احمد ہی رہے گا”
سبیکا کی آواز کی اداسی مالا کے دل میں اتر گئی۔
“نہیں ۔وہ میرا نہیں تھا۔ نہ کبھی ہو گا۔ قسمت نے اسے تمہارے لیے ہی بنایا ہے۔ ورنہ کب کا میرا ہو گیا ہوتا۔ لہذا تم بے فکر رہو۔ ایسا کچھ ممکن نہیں”
سبیکا نے بےاختیار آگے بڑھ کر مالا کو گلے لگا لیا۔ مالا ججھکی اور پھر اپنی بانہیں سبیکا کے گرد حمائل کر لیں۔اگلی صبح ناشتے کے بعد احمد بھی وہیں آ گیا۔
“مالا تم سے اہم بات کرنی ہے۔ چونکہ ہمیں وہ معلومات چاہیں لہذا تمہارا فی الحال گھر واپس جانا ضروری ہے۔ کل خوش قسمتی سے جوگندر سو ہی رہا تھا جب سبیکا نے اسے سوئی انجیکٹ کر کے بےہوش کیا۔ اسے نیند میں ایسا لگا ہو گا کہ کسی مچھر نے اسے کاٹا۔ صبح جاگنے پر اسے نہیں معلوم ہو گا کہ وہ رات بھر بےہوش رہا ہے۔ بلکہ اسے یہی لگے گا کہ وہ سوتا رہا ہے۔ تم اب واپس وہاں جاؤ۔ اور جا کر اسے کہو کہ صبح اسے سوتا دیکھ کر تم نور کو چھوڑنے نکل گئیں۔ اور گھر جا کر اچھی طرح دیکھو شاید حیدر کے حوالے سے کوئی انفارمیشن ہمارے ہاتھ لگ جائے۔ ”
مالا کے چہرے پر خوف دیکھ کر احمد نے بات جاری رکھی۔ “بے فکر رہنا۔ ہماری تم پر پوری نظر ہو گی۔ اس دن میں تمہارے گھر ایک ڈیوائس سیٹ کرنے آیا تھا۔ تاکہ تمہارے گھر کی نقل و حرکت سے ہمیں آگاہی رہے۔ اور جان بوجھ کر تم سے کہا تھا کہ خان میرا مطلب جوگندر سے پوچھ لو کہ میں اندر کیسے آیا۔ تاکہ وہ لوگ پریشان ہو جائیں اور کوئی ایسی ویسی حرکت کریں۔ جو انہوں نے تمہارے گھر کسی کو بھیجنے کی صورت میں کی بھی۔بس ذرا دیر ہو گئی ورنہ ہم اس آدمی کو پکڑ لیتے”
مالا کی آنکھوں میں ابھی بھی ڈر تھا مگر اس نے احمد کی بات سن کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
“اور شام کر تم جوگندر کو یہ کہہ کر نکلو گی کہ تم شاپنگ پر جا رہی ہو۔ گھر سے نکل کر تم پاس ہی ” فیملی مارٹ” نامی شاپنگ مال میں پہنچو گی۔ وہاں سے تمہیں لے کر آنا میری ذمہ داری ہے۔ بس یہ ذہن میں رکھنا کہ تمہیں شام سے پہلے پہلے کوئی کلیو تلاش کرنا ہے۔ کیونکہ دوبارہ شاید تمہارا وہاں جانا یا رات رکنا خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔ اور میں تمہیں خطرے میں ڈالنے کا اور کوئی رسک نہیں لے سکتا۔”
🌷
مالا واپس گھر پہنچی تو خان بابا نے فورا دروازہ کھولا “مالا بی بی ہم تو پریشان ہو گیا تھا۔ تم کہاں گیا چلا گیا تھا۔”
“کچھ نہیں خان ۔ تمہاری نور بی بی کو جلدی گھر جانا تھا۔ اسکے شوہر نے رات باہر سے کھانا کھا لیا تو اسکی طبعیت ذرا خراب ہو گئی تھی۔ بس اسی لیے نور کو چھوڑنے چلی گئی کہ اسی بہانے اسکے شوہر کی عیادت بھی ہو جائے گی۔خان تم سو رہے تھے تو جگایا نہیں تمہیں۔ ویسے یہ تم سوتے ہی رہتے ہو یا کوئی چوکیداری وغیرہ بھی کرتے ہو۔ آئندہ سے روز اٹھ کر تمہیں دیکھنا پڑے گا۔”
مالا کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے نارمل دکھائی دینے کی بھرپور کوشش کی تھی اور کامیاب بھی ہو گئی۔ خان بابا اس کی بات سن کر ہنس پڑا “نہیں نہیں مالا بی بی۔ جب تک ہم ہے آپ کو فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ رات پتہ نہیں کیسے آنکھ لگ گئی۔ مگر آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔”
مالا نے مسکرا کر سر ہلایا اور اندر چلی گئی۔
🌷
حیدر نے کمرے میں تو ایسا کچھ نہیں رکھا ہو گا۔کیونکہ ظاہر ہے مالا اور اسکا کمرہ ایک ہی تھا۔ یہی سوچ کر مالا نے اسٹڈی روم سے اپنی تلاش شروع کی۔
حیدر کی ساری کتابیں اچھی طرح کھول کر دیکھ لیں۔ مگر کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔اسٹڈی روم میں رکھے حیدر کی میز کی دراز۔۔۔ شیلف پر سجی ساری چیزیں۔ ادھر ادھر ہر جگہ دیکھا مگر ایسا کچھ بھی نہیں تھا جو مالا کے کسی کام آ سکتا۔
حیدر اپنے کلینک کی دستاویز اسٹڈی روم کے ساتھ والے کمرے میں رکھتا تھا۔ مالا اسی کمرے کی طرف گئی۔
سب آج بھی ویسے ہی تھا جیسے حیدر چھوڑ کر گیا تھا۔ مالا کو لگا حیدر ابھی کہیں سے آئے گا اور اسے کہے گا کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے۔ اکثر وہ اس کمرے میں آتی تو حیدر اسے یہی کہہ کر بھگا دیتا تھا کہ کوئی اہم دستاویز ادھر ادھر ہو گئی تو مالا کی خیر نہیں۔
مالا کو یاد آیا کہ حیدر ایک ڈائری میں اپنے سب مریضوں کا اندراج رکھتا تھا۔ اس نے وہی ڈائری ڈھونڈنی شروع کی۔مالا جانتی تھی کہ حیدر وہ ڈائری اسی کمرے میں موجود ایک میز کی دراز میں رکھتا تھا۔ مالا نے میز کا دراز کھولنا چاہا۔ مگر کافی عرصہ سے نہ کھلنے کیوجہ سے دراز شاید جام تھا۔ مالا نے ذرا زور لگا کر دراز کھولنا چاہا تو زور لگانے کیوجہ سے سارا دراز ہی نکل کر مالا کے ہاتھ میں آ گیا۔ تبھی مالا نے دیکھا کہ دراز کے نیچے بھی ایک چھوٹا سا دراز بنا ہوا ہے جس کا منہ الٹی طرف کھلتا تھا۔ یعنی باہر سے وہ ایک ہی دراز لگتا تھا مگر اندر سے وہ دو دراز تھے۔ جن میں سے ایک کا منہ سامنے اور دوسرے دراز کا پیچھے کی طرف کھلتا تھا۔
مالا نے وہ دوسرا دراز بھی کھولا۔